پاکستان، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سب سے پیچھے
پاکستان خطے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت، فلپائن، ترکی، سری لنکا، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔
پاکستان نے ایک سال میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.9 فیصد اور صحت پر جی ڈی پی کا 0.48 فیصد خرچ کیا۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس گزشتہ ہفتے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان دنیا کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقعے کے موضوع پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اس بات کو تسلیم کیا کہ دوکروڑ سے زیادہ بچے اسکول سے باہر ہیں اور صرف 48 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو نیوٹریشن Nutrition اور غذائی قلت Food Securityکے شدید چیلنجزکا سامنا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک بھر میں 22 فیصد افراد کو مناسب غذا کی دستیابی کے بحران کا سامنا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 38 فیصد بچے ماں کے دودھ پر زندہ ہیں اور 5 سال کی عمر تک نے 40 فیصد کی بچوں کی گروتھ Stunted نہیں ہو پاتی۔ اسی طرح 28.9 فیصد بچے انڈر ویٹ اور آدھے بچے Anemic ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر تحریرکیا گیا ہے کہ حکومت نے فوڈ سیکیورٹی کے اس سنگین بحران پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی تو Sustainable Development Goals (SDGS) 2030 کا ٹارگٹ پورا نہیں کرسکے گا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 25.3 فیصد ہے۔
اس تناظر میں پاکستان خطِ غربت کے عالمی انڈیکس میں 192 ممالک میں سے 161ویں نمبر پر ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ دنوں میں شایع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے غریب ممالک میں 52ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں خواندگی کا تناسب 58 فیصد ہے مگر مردوں اور خواتین میں خواندگی کے حوالے سے بہت بڑا فرق ہے۔
مردوں میں خواندگی کا تناسب 8 فیصد اور خواتین میں 54.84 فیصد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں عمرکا تناسب 66.43 فیصد ہے۔ پاکستان میں شوگر، دل کے امراض، فالج اورگردوں کی بیماریاں عام ہیں۔ پاکستان میں تعلیم اور صحت اور صد فی صد خواندگی اور خطِ غربت کی شرح کم نہ ہونے سے ملک خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تعلیم اور صحت کبھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ سابق چیف سیکریٹری اور ملک میں تبدیلی کی تحریک کے معروف کارکن تسنیم صدیقی نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ جب پاکستان کے قیام کے بعد وزیر خزانہ غلام محمد نے پہلا بجٹ پیش کیا تو اس بجٹ میں سب سے کم رقم تعلیم اور صحت کے لیے وقف کی گئی اور اب تک اسی روایت پر عمل ہورہا ہے۔
معروف ماہرِ معاشیات شاہد جاوید نے ایک آرٹیکل میں تعلیم اور صحت اور پاکستانی ریاست کی پسماندگی کے حوالے سے لکھا تھا کہ آل انڈیا کانگریس نے آزادی کے بعد نئے بھارت میں تعلیم اور صحت کی ترقی کے لیے ایک قابلِ عمل منصوبہ تیارکیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت سیکڑوں نوجوانوں کو پی ایچ ڈی کرنے کے لیے برطانیہ بھیجا گیا تھا اور یہ نوجوان جب پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر واپس آئے تو انھوں نے بھارت کی ترقی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
ایک اور ماہرِ تعلیم انیتا غلام علی کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک ماہرِ تعلیم کی قیادت میں نئے ملک کے تعلیمی نظام کی تعمیر کے لیے ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی۔ اس رپورٹ میں پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے لیے جامع منصوبہ پیش کیا گیا مگر جب پاکستان وجود میں آیا تو برسرِ اقتدار حکومت نے اس رپورٹ پر توجہ نہ دی۔
دراصل پاکستان کے قیام کے بعد برسرِ اقتدار آنے والے رہنماؤں کے ذہنوں میں ملک کی ترقی کا کوئی وژن ہی نہیں تھا۔ ان حکمرانوں نے نجات کا راستہ امریکا کے سائے میں تلاش کیا۔ قبائلی پٹھانوں کا ایک لشکر کشمیر میں داخل ہوگیا۔ اس لشکرکی کارروائی کا فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ ترقی کا سارا معاملہ برطانیہ اور امریکا کی امداد تک محدود ہوا۔ یوں شعبہ تعلیم میں جو ترقی ہوئی وہ پہلے کولمبو پلان کے تحت ہوئی اور پھر امریکا کی امداد سے تعلیم و صحت کے شعبوں میں ترقی کی کچھ منازل طے ہوئیں۔
غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیاء الحق وغیرہ کے ذہنوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ترقی کی اہمیت کا ادراک نہیں تھا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان جب مغربی پاکستان کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے تو ڈاکٹر محبوب الحق کو مغربی پاکستان سیکریٹریٹ میں سیکریٹری خزانہ تعینات تھے۔ ڈاکٹر محبوب الحق جب بھی مغربی پاکستان کا بجٹ بناتے تو تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرتے مگر گورنر صاحب یہ رقم اپنے ہاتھوں سے کم کردیتے۔
جب ڈاکٹر محبوب الحق نے تیسری دفعہ یہ کوشش کی تو نواب آف کالا باغ نے ڈاکٹر محبوب الحق کو طلب کیا۔ نواب آف کالا باغ نے پنجابی لہجہ میں ڈاکٹر محبوب الحق سے پوچھا کہ وہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیوں کرتے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ ملک کو زیادہ تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے تو گورنر صاحب نے فوراً کہا کہ اتنے تعلیم یافتہ افراد کافی نہیں لگتے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے منشور میں تعلیم کو ریاست کی ذمے داری قرار دیا تھا۔ جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو تعلیمی پالیسی پیش کی جس کے تحت تعلیمی اداروں کو قومیایا گیا۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے علاوہ نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے اہم ادارے قائم ہوئے۔ اساتذہ کو وہی اسکیل دیا گیا جو سی ایس پی افسروں کو ملتا تھا جس کی بناء پر اسکولوں کا استاد بھی گریڈ 19 اور گریڈ 20 تک پہنچ سکتا تھا۔
اس پالیسی کے تحت چاروں صوبوں میں جنرل یونیورسٹیاں قائم کی گئیں مگر پیپلزپارٹی کی حکومت نے تعلیم پر خرچ ہونے والے اخراجات پر رقم بڑھا دی، البتہ یہ رقم یونیسکو کے بین الاقوامی معیار کے مطابق جی ڈی پی کے 5 فیصد تک نہیں پہنچ سکی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے صحت کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کیں۔ فارما سوٹیکل کمپنیوں کی لوٹ مار کو روکنے کے لیے ادویات کی جنرک اسکیم نافذ کی گئی۔ یہ اسکیم یورپی ممالک کے علاوہ بھارت میں بھی نافذ ہے۔
چاروں صوبوں میں نئے اسپتال اور میڈیکل یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ سرکاری شعبے میں فرائض انجام دینے والے جونیئر ڈاکٹروں کو گریڈ 17 تفویض کیا گیا، یوں ڈاکٹرگریڈ 22 کی اسامی تک کے حقدار قرار پائے۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت برسر اقتدار آئی تو نجی شعبے کو تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری کی اجازت دیدی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کی اس پالیسی کے نتیجے میں تعلیم اور صحت کموڈٹی کے طور پر مارکیٹ میں فروخت ہونے لگے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے 1988 اور 1993کے انتخابی منشوروں میں وعدہ کیا تھا کہ تعلیم کا بجٹ یونیسکو کے معیار کے مطابق 5 فیصد جی ڈی پی کیا جائے گا مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ یہی صورتحال مسلم لیگ، پرویز مشرف اور تحریک انصاف کے ادوار میں رہی۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ نہ ہونے سے پاکستان بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے پیچھے رہ گیا۔ ایسی ہی صورتحال صحت کے شعبہ میں ہوئی۔
موجودہ اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد کی رائے ہے کہ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے مگر وزیر خزانہ نیو لبرل ازم کے نظریے کے تحت تعلیم اور صحت کے لیے مختص رقم میں اضافہ کے لیے تیار نہیں۔
وزیر اعظم نے عالمی کانفرنس میں ناخواندہ خواتین اور کروڑوں بچوں کے اسکول نہ جانے کا تو ذکر کیا مگر انھوں نے یونیسکو کے معیار کے مطابق تعلیم کے بجٹ میں خاطر خوا اضافہ کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پڑوسی ممالک سے مقابلہ کرنا ہے تو سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کے تصور کو اپنانا ہوگا اور بجٹ کا بیشتر حصہ تعلیم ، صحت اور غربت کے خاتمے پر خرچ ہونا چاہیے۔