لاہور جوکبھی اپنی خوبصورتی، باغوں اور تاریخی ورثے کے لیے جانا جاتا تھا، آج ایک بدلتے ہوئے منظر نامے کا شکار ہے، وہ لاہور جس کی فضاؤں میں کبھی گلاب اور موتیا کی خوشبو بسی رہتی تھی جہاں نہروں کے کنارے لوگ زندگی کے سکون کو محسوس کرتے تھے اور جہاں کے باغات زندگی کی تازگی کا ذریعہ تھے، اب اپنے ہی سایوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔
ماضی کا لاہور ایک ایسا خواب تھا جس میں ہرگلی اور ہرکوچہ ایک کہانی سناتا تھا۔ سردیوں کی دھند میں لپٹی شامیں رومانی ہوا کرتی تھیں اور بہارکی ہوائیں ہر طرف خوشبو بکھیر دیتی تھیں۔ یہ شہر اپنی فضاؤں میں شاعری سموئے ہوئے تھا، جہاں سانس میں ایک تازگی محسوس ہوتی تھی۔
مگر آج وہی لاہور اپنی خوبصورتی کھو چکا ہے۔ دھند، جوکبھی شاعری کا موضوع ہوا کرتی تھی، اب زہریلے دھویں کی چادر بن چکی ہے۔ یہ دھند اب اسموگ بن کر لاہورکے آسمان پر چھا گئی ہے اور اس نے شہرکی فضاؤں کو زہر آلود کر دیا ہے۔ لاہور جوکبھی زندگی کی علامت تھا، آج بیماریوں آلودگی اور خوف کی علامت بن چکا ہے۔
لاہور حالیہ برسوں میں شدید اسموگ کا شکار رہا ہے جس نے صحت عامہ اور ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ اسموگ جو دھوئیں اور دھند کا مجموعہ ہے، بنیادی طور پر گاڑیوں کے دھوئیں، صنعتی اخراجات، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے ولے دھوئیں اور فصلوں کی باقیات جلانے جیسے عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
یہ سب اچانک نہیں ہوا لاہور کی موجودہ صورتحال ان تمام غلطیوں کا نتیجہ ہے جو ہم نے اپنے ماحول کے ساتھ کیں۔ بے ہنگم ترقی، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور صنعتی فضلے نے اس شہر کی فضاؤں کو بوجھل کر دیا ہے۔گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتی زہریلی گیسیں اور فصلوں کی باقیات کو جلانے کے عمل نے مل کر لاہور کو ایک ایسے زہریلے ماحول میں بدل دیا ہے جہاں سانس لینا بھی خطرے سے خالی نہیں۔
اسموگ کا اثر صرف ماحول پر ہی نہیں بلکہ انسانی صحت پر بھی گہرے نقوش چھوڑ رہا ہے۔ سانس کی بیماریاں، دل کے امراض اور آنکھوں میں جلن معمول بنتے جا رہے ہیں۔ عورتیں اور بچے اس زہریلے دھوئیں کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ خواتین جوگھروں کے اندر اور باہر دونوں جگہ سرگرم ہوتی ہیں، زیادہ وقت اس آلودہ فضا میں گزارتی ہیں اور بچے جن کے پھیپھڑے ابھی مکمل نشوونما نہیں پائے ہوتے اس آلودگی کے خطرناک اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
لاہورکی اس بدحالی کو دیکھ کر دل میں ایک خلش پیدا ہوتی ہے، وہ لاہور کہاں گیا جہاں کی فضائیں صاف تھیں جہاں سانس لینا ایک خوشگوار تجربہ تھا اور جہاں کے آسمان پر صرف روشن ستارے چمکتے تھے؟ آج لاہور کا ہر منظر ہر گوشہ دھندلا نظر آتا ہے۔
حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے چند اقدامات کیے ہیں۔ فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کی گئی ہے، فیکٹریوں کی مانیٹرنگ کے نظام کو مضبوط بنایا جا رہا ہے اور شجرکاری مہمات شروع کی گئی ہیں۔ ماحول دوست ٹرانسپورٹ کو فروغ دینے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کو متعارف کرایا جا رہا ہے اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے قوانین کو سخت کیا جا رہا ہے، مگر یہ سب اقدامات اس بڑے مسئلے کے لیے ناکافی محسوس ہوتے ہیں۔
لاہورکو اس زہریلی آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ مسئلہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے فیصلے لینے ہوں گے جو ماحول کے لیے فائدہ مند ہوں۔ گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال کم کرنا ہوگا، پبلک ٹرانسپورٹ کو اپنانا ہوگا اور درختوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ فصلوں کی باقیات کے لیے کسانوں کو متبادل فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ انھیں جلانے کے بجائے کسی اور طریقے سے استعمال کر سکیں۔
لاہور جو کبھی اپنی فضا کی خوشبو روشنی اور تازگی کی وجہ سے مشہور تھا، آج دھند میں لپٹا ہوا ایک بے رنگ سا شہر بن چکا ہے۔ مگر یہ وقت مایوسی کا نہیں عمل کا ہے، اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں صرف کتابوں اورکہانیوں میں اس لاہور کو جان سکیں گی جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ ہمیں اس خواب کو بکھرنے سے بچانا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنے شہرکی خوبصورتی کو دوبارہ بحال کریں تاکہ لاہور پھر سے وہی روشنیوں اور خوشبوؤں کا مسکن بن جائے جس نے کبھی دنیا کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی تھی۔
لاہور میں اسموگ کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو مل کر موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صحت عامہ اور ماحولیات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ اس مسئلے کو مستقبل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے حکومت عوام اور ماحولیاتی ماہرین کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں فوری اقدامات اٹھائے کے ساتھ ساتھ طویل المدتی پالیسیز بنانی ہوں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ایک صحت مند اور صاف ماحول میں زندگی گزار سکیں۔اس مسئلے کا ممکنہ حل یہ ہے کہ صاف توانائی کا استعمال کیا جائے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کے بجائے شمسی اور ہوا کی توانائی کو فروغ دیا جائے۔
بہتر اور ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے گاڑیوں کا دباؤ کم کیا جاسکتا ہے۔ شجر کاری مہم کے ذریعے ہوا کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ صنعتوں اورگاڑیوں سے ہونے والی آلودگی کو روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کے جائیں۔ لوگوں کو ماحولیات کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔