لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ بیک چینل رابطے نہ ہوتے تو بات یہاں تک نہیں پہنچنی تھی، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ بیک چینل رابطے نہ ہوں وہ ہمیشہ رہتے ہیں، چلتے رہتے ہیں، کوئی انکار کرے اقرار کرے یہ علیحدہ بات ہوتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مطالبات کی فہرست میں جو کمی ہوئی اس کی بنیادی وجہ بھی بیک چینل رابطے ہیں، ظاہر ہے کسی لیول پر انڈر اسٹینڈنگ ہوتی ہے اس کے بعد بات آگے بڑھتی ہے پھر آپ مذاکرات کی ٹیبل تک بھی جاتے ہیں۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ بات یہ ہے کہ نظر بھی آ رہا ہے اور یہ محسوس بھی ہو رہا ہے کہ بیک ڈور رابطے ہو رہے ہیں، تشویش کی بات (ن) لیگ کے لیے ہے اگر واقعی ان کی نظر میں اس بات کی اہمیت ہے جب وہ بیک ڈور رابطوں کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مائنس مسلم لیگ بات ہو رہی ہے، مسلم لیگ اس بیک ڈور ڈپلومیسی کا یا بیک ڈورمذاکرات کا ایک حصہ نہیں ہے۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ حکومت پہلے دن سے سنجیدہ نہیں ہے، جب مذاکرات شروع ہوئے تو ہم نے ان کو خوش آئند قرار دیا کہ اس سے کشیدگی کم ہوگی لیکن حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی، دوسری طرف دیکھیں تو پی ٹی آئی کی طرف سے سنجیدگی، اس تناظر میں دیکھا جائے کہ جو ان کے ابتدائی مطالبات تھے ان میں کم از کم مینڈیٹ، چھبیسویں آئینی ترمیم کے مطالبات سے یوٹرن لیا اور ان سے دستبردار ہو گئے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ عوام لگتے کیا ہیں؟ عوام عوام کی بات ہو رہی ہے، کس نے کب سنجیدگی سے دیکھا؟ وہ جو بیک ڈور ہے ، عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ بالواسطہ طور پر مجھے میسج آتے ہیں ، جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے انکار کیا کہ جو میسج لایا نہ اس کا بتاؤں گا جس کا میسج لایا وہ بھی نہیں بتاؤں گا، بیرسٹر سیف نے بھی یہی بات کی۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے چاہییں چاہے بیک ڈور رابطے ہو رہے ہوں، آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر تنقید نہیں کرنی چاہیے، مسئلہ حل ہو رہا ہے تو اس کو حل کرنا چاہیے لیکن بات یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے پر تنقید کیے بغیر رہ نہیں سکتے،حکومت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو بھی سنجیدہ ہونا چاہیے۔