حیرت ہے کہ ہر اچھی، قابلِ فخر اورانسانیت نواز خبر مغرب ہی سے کیوں آتی ہے ؟اور ہر بُری اور ہراساں انگیز خبر ہمارا مقدر ہی کیوں بنتی ہے؟ ہمارے ہر قسم کے حکمران ہم عوام کے لیے دہشت کی علامت کیوں بن جاتے ہیں؟ ہم جب اپنے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کا موازنہ مغربی حکمرانوں اور اُن کے اندازِ حکومت سے کرتے ہیں تو ہمارے حصے میں ندامت ہی آتی ہے۔ہمارے منتخب نمائندگان جب ایک بار اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو جاتے ہیں تو پھر اقتدار کو ہمیشہ کے لیے اپنا حرزِ جاں بنا لیتے ہیں۔
ہمارے طاقتور سرکاری افسران ایکسٹینشن کے نام پر اقتدار کو طول دیتے ہیں۔ اقتدار کی محبت سے مغلوب ہو کرہمارے ایک سابقہ غیر منتخب حکمران نے اپنے مقتدر لباس کو اپنی ’’چمڑی‘‘ قرار دیا تھا۔ پچھلے برس بنگلہ دیشی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، نے اپنے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لالچ میں ملک کے ایک ہزار سے زائدمعصوم شہری قتل کروا ڈالے ۔ بالآخر اقتدار سے رخصت تو ہُوئیں مگر اپنے ملک کو خون کا غسل دے کر۔ حالیہ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ اقتدار و اختیار کے مہلک لالچ نے عراق کے صدام حسین ، لیبیا کے کرنل قذافی اور شام کے بشارالاسد کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ۔
مغربی ممالک میں مگر ایسا نہیں ہورہا ۔ وہاں کے حکمران اور اعلیٰ سرکاری عہدیدار اقتدار اور اختیار کو اپنی جان کا روگ بنائے رکھتے ہیں نہ اقتدار کو اپنی کھال ۔ مثال کے طور پر جنوری2025کے پہلے ہفتے خبر آئی کہ کینیڈا کے منتخب وزیر اعظم، جسٹن ٹروڈو، مستعفی ہو گئے ہیں۔جسٹن ٹروڈو نے جب محسوس کیا کہ پارٹی اور حکومت میں اُن کی کوئی خاص عزت باقی نہیں رہی ہے تو اُنھوں نے اقتدار سے چمٹے رہنے کی بجائے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا ۔
اب وہ مارچ2025کے تیسرے ہفتے تک وزارتِ عظمیٰ کی ، آئینی طور پر، ذمے داریاں سنبھالے رہیں گے تاآنکہ اُن کی اپنی پارٹی یا اپوزیشن پارٹی کینیڈا کا اگلا وزیر اعظم نہیں چُن لیتے۔اِسی طرح پچھلے برس خبر آئی کہ مغربی یورپ کے ایک ملک ،آئر لینڈ، کے نوجوان وزیر اعظم ، لیو وردکار (Leo Varadkar)نے از خود استعفیٰ دے کر اقتدار و اختیار اور حکومت سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی ۔
لیو وردکار آئر لینڈ کے مقبول ترین اور محبوب ترین وزیر اعظم تھے ۔ اپنی پارٹی(Fine Gael) کے اندر بھی انھیںکوئی خطرہ اور چیلنج درپیش نہیں تھا ۔ اُن کے خلاف کوئی ایسا سیاسی اور مالیاتی اسکینڈل بھی نہیں تھا جس سے ڈر کو انھیںقبل از وقت استعفیٰ دینا پڑ جاتا ۔ ایک صبح مگر جب اُنھوں نے آئر لینڈ کے صدر ، مائیکل ہوگنز، کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تو سارا آئر لینڈ دَم بخود رہ گیا ۔
لیو وردکار ماضی قریب میں آئر لینڈ کے کامیاب وزیر صحت بھی رہے اور وزیر ٹرانسپورٹ بھی ۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ خود بھی میڈیکل ڈاکٹر رہے ہیں ۔ 2017 میں وہ بھاری اکثریت سے، صرف 38 سال کی عمر میں، آئر لینڈ کے وزیر اعظم منتخب ہُوئے تھے۔ اُن کے مستعفی ہو جانے کے بعد اب مقتدر پارٹی نے اپنے ایک وزیر ، سائمن ہیرس، کو وزیر اعظم منتخب کرلیا ہے ۔لیو وردکار نے استعفیٰ دیتے وقت جو الفاظ کہے ہیں، وہ تاریخ ساز بھی ہیں اور ہم ایسے ’’پچھلگ‘‘ ممالک کے لالچی حکمرانوں کے لیے باعث شرم بھی ۔ لیو وردکار نے کہا:’’مَیں نے دو بار وزیر اور ایک بار وزیر اعظم کی حیثیت میں، دس سال تک، قوم و ملک کی خدمت کی ہے ۔ دس سال بڑے ہوتے ہیں ۔
مَیں سمجھتا ہُوں کہ بطورِ وزیر اعظم اب مَیںمزید اِس عہدے پر نہیں رہ سکتا ۔ اِس شاندار ملک کے 55لاکھ عوام کا بوجھ میرے کندھے نہیں اُٹھا سکتے۔ اب دوسروں کو یہ منصب سنبھالنا چاہیے۔ سائمن ہیرس یہ ذمے داری اُٹھا سکتے ہیں ۔ وہ اہل بھی ہیں، نہایت ذمے دار بھی اور لائق بھی ۔ مَیں مستعفی ہو کر نئی زندگی کا نیا باب کھولنا چاہتا ہُوں۔
میری پارٹی، میرے عوام اور حکومت اگر میری کسی غلطی، کوتاہی اور میرے کسی غیر ذمے دارانہ فعل کا احتساب کرنا چاہیں تو مَیں ہر وقت حاضر ہُوں۔‘‘کیا ہمارا کوئی حکمران از خود اقتدار و اختیار سے دامن کش ہو کر ، جاتے ہُوئے ، ایسے الفاظ ادا کر سکتا ہے؟ اپنا اقتدارو اختیار یوں خوش دِلی سے پارٹی میں اپنے پیچھے آنے والوں کو سونپ سکتا ہے؟اپنی کرسی سنبھالنے والے کی یوں کھلے دل سے تعریف کر سکتا ہے؟ ہمارے کسی صاحبِ اختیار نے حکومت سے نکلتے وقت خود کو یوں عوام کے سامنے احتساب کے لیے کبھی پیش کیا؟ ایکسٹینشن کے نام پر اقتدار و اختیار کا مسلسل رَس چوسنے پر مُصر اور بضد رہتے ہیں ۔ ملک کے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، حکمرانوں سے عوام کی ناپسندیدگی خواہ اوجِ ثریا تک پہنچ رہی ہو، اقتدارو اختیار سے چمٹے رہنا ہمارے ظاہری و خفی حکمرانوں کی جبلت کا حصہ بن چکی ہے۔
اِس بے لگام خواہش نے ہمارے ہمہ قسم کے حکمرانوں سے جمہوری رویے چھین لیے ہیں ۔ اُن کی عوام دشمنی بڑھ گئی ہے ۔ اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمارا معاشرہ کسی بدو معاشرے سے بہتر نہیں ہے ۔ اور ایسے معاشرے بارے کئی سال قبل امریکی دانشور ،کئی معرکہ آرا کتابوں کے مصنف اور سابق امریکی وزیر خارجہ ، ہنری کسنجر، نے تجزیہ اور تبصرہ کرتے ہُوئے یوں کہا تھا:’’عرب دُنیا میں جاؤ تو سمجھو کہ عوام کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
کوئی عوامی ادارہ وہاں بروئے کار نہیں ہے ۔ اس لیے عرب دُنیا کو ایک بدو قبیلے کی طرح لو۔ وہاں سب سے بڑا خیمہ قبیلے کے سردار کا ہوگا، اُسی کے ساتھ معاملات طے کرو ۔ عوام کی کوئی فکر نہ کرو ۔ سردار اپنے لوگوں کو خود مطمئن کر لے گا ۔‘‘ اگر ہم ہنری کسنجر کے اِس گہرے تجزیئے میں عرب دُنیا کی بجائے ’’پاکستان کی دُنیا ‘‘ شامل کر لیں تو یہ تبصرہ ہم پر بھی پوری طرح منطبق ہو جاتا ہے ۔
اقتدار و اختیار کے بے مہار لالچ میں مبتلا ہمارے جملہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر جس وحشت سے عوام کے حقوق غصب کررکھے ہیں ، اِس پس منظر میں ہمیں قطر یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کا مضمون پڑھانے والے نامور دانشور، پروفیسر ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی، کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں:’’ جارج بش، مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو فون کرتا ہے اور جو چاہتا ہے ، حاصل کر لیتا ہے ۔ جو بائیڈن ، آج کے مصری ڈکٹیٹرجنرل السیسی کو فون کرتا ہے اور من مرضی کے فیصلے کروا لیتا ہے۔ امریکی صدر پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو فون کال کرکے اپنے من پسند مطالبات منوا لیتا ہے ۔ اور فرانسیسی صدر، الجزائر کے صدر کو فون کرکے جو بات چاہتا ہے ، منوا لیتا ہے ، قطع نظر اِس کے کہ پاکستانی ، مصری یا الجزائری عوام کی خواہشات کیا ہیں؟۔‘‘ اور یہ سب اس لیے ہے کہ پاکستان سمیت مسلم دُنیا کے اکثر حکمران عوامی خواہشات کے برعکس اقتدارو اختیار پر قابض ہیں ۔
انھیں حکمرانی میں قانونی و سیاسی قبولیت کے لاتعداد بحرانوں کا سامنا ہے ۔ وہ مگر بدستور اقتدار سے چمٹے نظر آتے ہیں ۔ آئر لینڈ کا(سابق) وزیر اعظم ، لیو وردکار، احساسِ ذمے داری سے اپنے 55 لاکھ عوام کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہے اور ہمارے وزیر اعظم تباہ حال معیشت کے باوصف، 25کروڑ عوام کا بوجھ خوشی خوشی اُٹھاتے نظر آ رہے ہیں ۔ یہ بھی اقتدار واختیار کا لالچ ہی ہے جس نے بانی پی ٹی آئی کو پسِ دیوارِ زنداں پہنچا دیا ۔ آج 17جنوری کو شاید عدالت اُن کے بارے کیا اور کئی بار روکا گیا فیصلہ سنا ہی دے ۔