حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’دس چیزیں ہیں جو امور فطرت میں سے ہیں، مونچھوں کا ترشوانا، داڑھی کا چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی بھر کر اس کی صفائی کرنا، ناخن ترشوانا، انگلیوں کے جوڑوں کو (جن میں اکثر میل کچیل رہ جاتا ہے اہتمام سے) دھونا، بغل کے بال کاٹنا، موئے زیر ناف کی صفائی کرنا، اور پانی سے استنجاء کرنا۔‘‘ (حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ مصعب نے بس یہی نو چیزیں ذکر کی ہیں اور فرمایا کہ دسویں چیز میں بُھول گیا ہوں اور میرا گمان یہی ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔) (مسلم شریف)
اس حدیث میں دس چیزوں کو ’’من الفطرۃ‘‘ یعنی امور فطرۃ میں سے کہا گیا ہے۔ بعض شارحین حدیث کی رائے یہ ہے کہ الفطرۃ سے مراد یہاں سنّت انبیائے کرامؑ یعنی پیغمبروں کا طریقہ ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اسی حدیث کی مستخرج ابی عوانہ کی روایت میں فطرۃ کی جگہ سنّت کا لفظ ہے، اس میں ’’عشر من الفطرۃ‘‘ کی بہ جائے ’’عشر من السنۃ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں انبیائے کرام علیہم السلام کے طریقے کو الفطرۃ اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام نے جس طریقے پر خود زندگی گزاری اور اپنی امتوں کو جس پر چلنے کی ہدایت کی اس میں دس باتیں شامل تھیں۔ گویا یہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کی متفقہ تعلیم اور ان کے مشترکہ معمولات میں سے ہیں۔
بعض شارحین نے الفطرۃ سے دین فطرت یعنی دین اسلام مراد لیا ہے۔ قرآن مجید میں دین کو فطرت کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، مفہوم: ’’پس سیدھا کرو اپنا رخ سب طرف سے یک سُو ہو کر دین حق کی طرف اﷲ کی بنائی فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اﷲ کی بناوٹ میں تبدیلی نہیں، یہ دین ہے سیدھا پکا۔‘‘ (الروم)
اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دس چیزیں دین فطرت یعنی اسلام کے اجزاء یا احکامات میں سے ہیں۔ اور بعض شارحین نے الفطرۃ سے انسان کی اصل فطرت و جبلت ہی مراد لی ہے۔ اس تشریح کی بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ دس چیزیں انسان کی فطرت کا تقاضا ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے اس کی بنائی ہے۔
گویا جس طرح انسان کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ ایمان اور نیکی اور طہارت و پاکیزگی کو پسند کرتا ہے، اور کفر و فواحش و منکرات اور گندگی و ناپاکی کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح مذکورہ بالا دس چیزیں ایسی ہیں کہ انسانی فطرت (اگر کسی خارجی اثر سے ماؤف اور فاسد نہ ہو چکی ہو) تو ان کو پسند ہی کرتی ہے اور حقیقت شناسوں کو یہ بات معلوم اور مسلّم ہے کہ انبیاء علیہم السلام جو دین اور زندگی کا طریقہ لے کر آتے ہیں وہ دراصل انسانی فطرت کے تقاضوں ہی کی مستند اور منضبط تشریح ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے خود بہ خود معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث کے لفظ الفطرت کا مطلب خواہ سنّت انبیاء ہو خواہ دین فطرت اسلام ہو، اور خواہ انسان کی اصل فطرت و جبلت ہو، حدیث کا مدعا تینوں صورتوں میں ایک ہی ہوگا اور وہ یہ کہ دس چیزیں انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے اس متفقہ طریقہ زندگی اور اس دین کے اجزاء و احکام میں سے ہیں، جو دراصل انسان کی فطرت و جبلت کا تقاضا ہے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃاﷲ علیہ نے حجۃ اﷲ البالغہ میں اپنے خاص حکیمانہ طرز پر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے چند سطریں لکھی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس عملی باتیں جو دراصل طہارت و نظافت کے باب سے تعلق رکھتی ہیں، ملت حنفیہ کے مؤسس و مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہیں اور ابراہیمی طریقے پر چلنے والی حنفی امتوں میں عام طور سے ان کا رواج رہا ہے، اور ان پر ان کا عقیدہ بھی رہا ہے۔ قرن ہا قرن تک وہ ان اعمال کی پابندی کرتے ہوئے جیتے اور مرتے رہے ہیں۔
اسی لیے ان کو فطرت کہا گیا ہے۔ اور یہ ملت حنفی کے شعائر ہیں اور ہر ملت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے کچھ مقرر و معلوم شعائر ہوں اور وہ ایسے اعلانیہ ہوں جن سے اس ملت والوں کو پہچانا جا سکے اور ان میں کوتاہی کرنے پر ان سے مواخذہ کیا جا سکے تاکہ اس ملت کی فرماں برداری اور نافرمانی، احساس اور مشاہدے کی گرفت میں آسکے اور یہ بھی قرین حکمت ہے کہ شعائر ایسی چیزیں ہوں جو نادر الوقوع نہ ہوں، اور ان میں معتد بہ فوائد ہوں اور لوگوں کے ذہن ان کو پوری طرح قبول کریں اور ان دس چیزوں میں یہ باتیں موجود ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ان چند باتوں پر غور کرنا چاہیے۔
جسم انسانی کے بعض حصوں میں پیدا ہونے والے بالوں کے بڑھنے سے پاکیزگی پسند اور لطیف مزاج آدمی کی سلیم فطرت منقبض اور مکدر ہوتی ہے جس طرح کہ حدث سے یعنی کسی گندگی کے جسم سے خارج ہونے سے ہُوا کرتی ہے‘ بغل میں اور ناف کے نیچے پیدا ہونے والے بالوں کا حال یہی ہے اسی لیے ان کی صفائی سے سلیم الفطرت آدمی اپنے قلب و روح میں ایک نشاط اور انشراح کی کیفیت محسوس کرتا ہے جیسے کہ یہ اس کی فطرت کا خاص تقاضا ہے اور بالکل یہی حال ناخنوں کا بھی ہے۔
اور داڑھی کی نوعیت یہ ہے کہ اس سے چھوٹے اور بڑے کی تمیز ہوتی ہے اور وہ مردوں کے لیے شرف اور جمال ہے، اسی سے ان کی مردانہ ہیئت کی تکمیل ہوتی ہے اور سنت انبیاء کرامؑ ہے اس لیے اس کا رکھنا ضروری ہے۔ اور مونچھوں کے بڑھانے اور لمبا رکھنے میں کھلا ہُوا ضرر یہ ہے کہ منہ تک بڑھی ہوئی مونچھوں میں کھانے پینے کی چیزیں لگ جاتی ہیں، اور ناک سے خارج ہونے والی رطوبت کا راستہ بھی وہی ہے اس لیے صفائی و پاکیزگی کا تقاضا یہی ہے کہ مونچھیں زیادہ بڑی نہ ہونے پائیں، اس واسطے مونچھوں کے ترشوانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کلی اور پانی کے ذریعے ناک کی صفائی اور مسواک اور پانی سے استنجاء اور اہتمام سے انگلیوں کے ان جوڑوں کو دھونا جن میں میل کچیل رہ جاتا ہے، صفائی اور پاکیزگی کے نقطۂ نظر سے ان سب چیزوں کی ضرورت و اہمیت کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔
بعض اکابر علماء نے فرمایا کہ اس حدیث سے یہ اصول معلوم ہوگیا کہ جسم کی صفائی اور اپنی ہیئت اور صورت کی درستی اور ایسی ہر چیز کا ازالہ اور اس سے اجتناب جس سے گھن آئے اور کراہیت پیدا ہو احکام فطرت میں سے ہے، اور طریقہ ٔ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صورت کی تحسین کو اپنا خاص انعام و احسان بتلایا ہے۔