انسانی اسمگلنگ، موت کے سوداگر

دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنا ہے


ایڈیٹوریل January 18, 2025

  مغربی افریقہ کے ملک موریطانیہ سے اسپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی کو حادثہ پیش آگیا۔ چوالیس پاکستانیوں سمیت پچاس افراد ہلاک ہوگئے۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی، انسانی اسمگلنگ کے خلاف بھرپور اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جرم میں ملوث افراد سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجنے والے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ گئے اور اس پر خطر راستے کا انتخاب کرنے والوں میں سے کئی موت کے منہ بھی چلے گئے۔

پاکستان میں اس مسئلے کی بڑی وجوہات میں بیروزگاری میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کو بھی شمار کیا جاتا ہے، جس کے باعث عام شہری قانونی یا غیر قانونی طریقے سے ترک وطن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری ہیں، تاہم انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے نتائج اب بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کی انسانوں کی اسمگلنگ کے موضوع پر تیار کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں 2022 سے پاکستان کی درجہ بندی ’’ ٹیئر ٹو‘‘ میں کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کی گئی تشریح کے مطابق اس ٹیئر میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو انسانی اسمگلنگ کے امریکی قانون کے معیار پر تو پورے نہیں اترتے لیکن اس حوالے سے خاطر خواہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔

 ہیومن ٹریفکنگ کا نشانہ بننے والے پاکستانی باشندوں میں بڑی تعداد اور سب سے المناک صورتحال بچیوں اور عورتوں کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا فقدان ہر جگہ نظر آتا ہے۔ اس معاملے میں خرابی کی ایک بڑی وجہ عملی طور پر یہ واضح نہ ہونا بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے کس ادارے نے کیا کرنا ہے؟ ہیومن ٹریفکنگ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔

پاکستان میں اس کی روک تھام کی ذمے داری ایف آئی اے کو دی گئی ہے لیکن درحقیقت ہیومن ٹریفکنگ کے بہت سے معاملات مقامی یا صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس حوالے سے صورتحال کا واضح نہ ہونا کئی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسانی اسمگلنگ کا کوئی کیس ابتدائی مراحل میں کس کو رپورٹ کیا جائے؟ کیس کون چلائے گا اور اس کیس کا آگے چل کرکیا بنے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جوابات کے لیے باقاعدہ واضح اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔دراصل جرائم پیشہ افراد غربت، محرومی، نا امیدی اور معاشی مسائل سے نبرد آزما نوجوانوں کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں، انھیں بہترین مستقبل کے خواب دکھا کر اور ان سے پیسے اینٹھ کر انھیں غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔

سندھ اور جنوبی پنجاب میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ سادہ لوح مردوں اور عورتوں کو ملازمتوں کے نام پر بھیک منگوانے کے لیے بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ پاکستانی خواتین اور بچیاں مجبوری اور محرومی کے باعث اور بہتر زندگی کے جھوٹے وعدوں کے بعد اسمگلروں کا شکار بن جاتی ہیں کیونکہ وہ معاشرے کا سب سے زیادہ غیر محفوظ طبقہ ہیں۔

 کچھ اندازوں کے مطابق ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان سے ایران اور ترکی کے ذریعے یونان اور اٹلی وغیرہ کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

 بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے والے نوجوان یورپ تک رسائی کو اپنے خواب کی تعبیر سمجھتے ہوئے اس سفرکے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ایران کے سنگلاخ پہاڑوں سے یونان کے سمندروں تک، ہر سال اَن گنت نوجوان اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ تارکینِ وطن میں سب سے بڑی تعداد پاکستانی نوجوانوں کی ہوتی ہے۔

ہر بڑے حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے مگر پھر یہ کارروائیاں وقت کی گرد تلے دب جاتی ہیں۔ پنجاب اور آزاد کشمیر کے مخصوص اضلاع میں انسانی اسمگلنگ کا دھندہ عروج پر ہے اور ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 15 ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد حادثات کا شکار ہو جاتی ہے جب کہ ملک کے حصے میں بدنامی الگ سے آتی ہے۔ نقل مکانی کے متعلق کام کرنے والی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے یہی راستہ اور طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

آئی او ایم کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن پاکستان سے یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا جانے کے لیے تین راستے استعمال کرتے ہیں، جن میں سے یورپ جانے کے لیے بلوچستان، ایران اور ترکی کا راستہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس راستے پر پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے تفتان کے علاوہ منڈ بلو اور پشین کے خفیہ راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

لوگوں کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث منظم گروہ جعلی کاغذات کی تیاری سے لے کر بری، بحری اور فضائی سفر کے لیے تارکین وطن سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔ کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے زمینی راستے کے ذریعے ایران سے ترکی جانے کے لیے ایک ایجنٹ کم سے کم 25 سو ڈالر لیتا ہے، جب کہ یونان پہنچانے کے لیے چار ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ہر ماہ دو ہزار کے قریب لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعداد و شمار کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے۔

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی اس قدر خوفناک شرح کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ اس ضمن میں قانون سازی پر توجہ نہیں دی گئی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حوالے سے متعدد قوانین موجود ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ کے تحت ہیومن ٹریفکنگ کی مختلف اشکال جن میں حبس بیجا میں رکھ کر بیگار لینا، جنسی مقاصد کے لیے بچوں کی تجارت، آزاد شہری کو غلام بنانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور اس کے مرتکب افراد کے لیے جرمانے سے لے کر عمر قید تک سزائیں موجود ہیں۔

اس ضمن میں دیگر تشکیل دیے جانے والے قوانین میں بونڈڈ لیبر سسٹم ابولیشن ایکٹ بی ایل ایس اے(Bonded Labor System abolition Act) اور پریوینشن اینڈ کنٹرول آف ہیومن ٹریفکنگ آرڈیننس پچتو(Prevention and Control of Human Trafficking Ordinance) شامل ہیں۔ تاہم ہیومن ٹریفکنگ اور انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے میں ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان قوانین اور پاکستان پینل کوڈ کے مطابق ترتیب دیے گئے قوانین میں تصادم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پچتو کے تحت گرفتار ہونے والے ملزمان کو کم از کم سات جب کہ زیادہ سے زیادہ چودہ سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان پینل کوڈ کے تحت انھی الزامات سے ملتے جلتے الزامات میں گرفتار ہونے والوں کے لیے معمول کی سزائیں موجود ہیں جس کی وجہ سے ماتحت عدالتیں اس قسم کے مقدمات میں سزاؤں کے تعین کے حوالے سے الجھاؤ کا شکار ہوتی ہیں۔

مزید برآں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ تاحال بی ایل ایس اے کے تحت ایک بھی مجرم کو سزا نہیں ہوسکی۔پاکستان سے انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے فعال ہیں۔ ان میں صوبائی پولیس کے محکمے بھی شامل ہیں اور وفاقی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یا ایف آئی اے کا امیگریشن ونگ بھی۔ رواں سال کے آغاز پر ایف آئی اے نے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف ایک جامع آپریشن شروع کیا تھا، جس کے اب تک کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں اب تک انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے 655 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے 14 انتہائی مطلوب جب کہ 136 اشتہاری اسمگلر تھے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی غربت‘ بیروزگاری اور معاشی مواقع کی قلت نوجوانوں کے ترکِ وطن کی بڑی وجہ ہے۔

انسانی اسمگلنگ کے مکمل تدارک کے لیے جہاں انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنا لازم ہے وہیں نوجوانوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے موثر اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ ملک کے اندر بہتر روزگار کے وافر مواقعے ہی نوجوانوں کو موت کے اس سفر سے باز رکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں