نکاح اور طلاق

انسان جسے خدا نے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے جب اسفلہ سافلین میں گرتا ہے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔


[email protected]

دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے یا یوں کہئیے کہ تاریخ ہمیشہ سے اپنے آپ کو یوں دہراتی رہی ہے کہ جب پندرہ فی صد اشرافیہ کے ہاتھوں تنگ آکر عوامیہ ’’بجنگ آمد‘‘ ہوجاتی ہے اورکوئی تحریک اٹھتی ہے اس کے خلاف اٹھتی ہے تو پہلے تو اشرافیہ اپنی طاقت کے زعم میں اسے ’’کمی کمین‘‘ لوگوں کی بستی سمجھ کر مذاق اڑاتی ہے لیکن جب وہ تحریک پھیلنے لگتی ہے تو اسے ہزار روکنے کی کوشش کرتی ہے۔

اس میں بھی ناکام ہوجاتی ہے اورتحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو یوٹرن لے کر اس کے ساتھ ہوجاتی ہے اوراپنے جدی پشتی کثرت استعمال سے مضبوط دماغوں سے کام لے کر ہراول دستے میں پہنچ جاتی ہے اوراس تحریک کو اپنے ڈھب پر لاکر موڑ لیتی ہے جس طرح کوئی شریف آدمی کسی غنڈے بدمعاش سے تنگ آکر اس پر کوئی ہتھیار تان لے اور بدمعاش اپنی چالاکی سے اسے پھسلا کر اس کا ہتھیار چھین کر اسی پر استعمال کرتا ہے ۔ بنوامیہ کی سربراہی پر مبنی اشرافیہ اسی ڈگر پر روانہ ہوئی جیسے تاریخ میں ہوتا رہا، وہی بادشاہ وہی عمال وہی طور طریقے ، صرف نام بدلے گئے۔ چنانچہ اسلامی معاشرہ بھی دو طبقوں میں بٹ گیا ، اصل اسلام کے داعی اور پیروکار تو کنارہ کش ہوکر اہل طریقت بن گئے ۔

شد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند

 ہزار گونہ سخن دردہان و لب خاموش

 یہ کہہ کر کہ

 امورمصلحت ملک ’’خسرواں‘‘ دانند

گدائے گوشتہ نشینی تو حافظامخروش

 اورجو لوگ ان ’’خسرواں‘‘ کے ساتھ ہوگئے وہ اہل شریعت کے مظالم اورعیاشیوں بدمعاشیوں کے لیے جوازات فراہم کرنے لگے ، ’’مال غنیمت‘‘ کا سیلاب آگیا چنانچہ ’’اشراف‘‘ کا یہ سلسلہ تخت کے لیے مصلے تک پھیل گیا، مساجد میں ایسے امام مروج ہوگئے جو پیچھے کھڑے ہوئے امرا کے لیے ان کے پسندیدہ مسئلے نکالنے لگے ۔ ظاہرہے کہ ایسی حالت میں علماء حق تو ایسا پیشہ اختیار نہیں کرسکتے تھے، اس لیے دین ان اماموں کے ہاتھ لگ گیا جن کا مبلغ علم چند سورتیں، دعائیں، کان میں اذان اورشادی غمی سے متعلق مروجہ امور اوربہت ساری بے سروپا کہانیوں پر مبنی ہوتا تھا جو ’’بینگن‘‘ کے نہیں ’’خان‘‘ کے ملازم ہوتے تھے ۔

ان ہی دنوں میں نکاحوں اورطلاقوں سے متعلق طرح طرح کے مسائل مروج کردیے گئے۔ سب سے پہلے چار نکاحوں کے مسئلے کو لیتے ہیں جو امیر لوگوں کا پسندیدہ شغل ہے ورنہ عام لوگوں کے لیے تو ایک شادی کرنا اورایک بیوی کو پالنا مشکل ہوتا ہے ۔سب سے پہلے تو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ’’حکم‘‘ نہیں ’’اجازت‘‘ ہے اوروہ بھی نہایت ہی مشروط اورقطعی ایک ہنگامی اورمخصوص صورت حال میں ۔چار شادیوں کی یہ اجازت سورۃ النساء میں دی گئی ہے لیکن اس اجازت والی آیت سے آگے اور پیچھے جو اصل مسئلہ بیان کیاگیا اورجس صورت حال میں یہ اجازت دی گئی اس کو یکسر فراموش کردیاگیا ہے ۔

یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جب ایک جنگ میں بہت سارے مسلمان شہید ہوگئے اوراپنے پیچھے بیوائیں اوریتیم بچے چھوڑ گئے۔ ایسی حالت میں ہمارے مشرقی ممالک میں بلاتفریق مذہب و ملت یہ روایت چلی آرہی ہے کہ مرنے والوں کی بیویاں اوربچے قریبی عزیز کی ذمے داری ہوجاتے ہیں ، بھائی، چچا زاد بھائی، ماموں یا چچا ہی ان کامالک سرپرست اورمختار ہوتا ہے ۔ انسان جسے خدا نے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے جب اسفلہ سافلین میں گرتا ہے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ جو ظلم ہوئے ہیں اورمردوں کو جو جوازات فراہم کیے گئے ہیں وہ نہایت درد ناک اورخون کے آنسو رلانے والی تاریخ ہے ۔تازہ ترین واقعہ ہے کہ مشورکردار اسامہ بن لادن کے والد جناب لادن جو سعودیہ کے منظورنظر ٹھیکیدار اورسرمایہ دار تھے ، حرمین میں بھی کاموں کے ٹھیکے اورشاہی عمارات کے ٹھیکے بھی اکثر ان کوملتے تھے، وہ اپنے 83 ویں نکاح کے لیے اپنے طیارے میں جارہے تھے کہ جہاز کریش ہوگیا اوروہ ترائیسویں خاتون ان کی سرپرستی سے محروم رہ گئی۔

اب شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ’’چار‘‘ میں ترائیس کاجواز کہاں سے اورکیسے پیدا ہوگیا تو تمام حل موجود ہیں ۔ ترکی کے سلطان عبدالحمیدکو جب اقتدار سے محروم کیاگیا تو اس کے حرم میں لگ بھگ ساڑھے چارسو کنیزیں تھیں ، تفصیلات جاننے کے لیے ان ہی کنیزوں میں سے ایک ’’نشاط‘‘ کی کتاب ’’مائی حرم لائف‘‘ پڑھی جاسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں