پی ٹی آئی اور خود احتسابی

اس سیاسی حکمت عملی کا تجزیہ کریںتو کم از کم اسے جمہوری سیاست تو نہیں کہا جاسکتا


لطیف چوہدری January 18, 2025
[email protected]

پی ٹی آئی کے منصوبہ سازوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسی سیاست کریں، وہ سیاست نہیں کررہے ، اس کی قیادت کی ساری توجہ اسٹیبلشمنٹ کو نیچا دکھانے، کنفوژن پیدا کرنے، بانی پی ٹی آئی کو مظلوم اور بے گناہ ثابت کرنے پر ہے ۔

پی ٹی آئی کے منصوبہ ساز پاکستان کی معیشت کو غیرمستحکم کرنا چاہتے ہیں، اوور سیز پاکستانیوں کو زرمبادلہ نہ بھیجنے کی مہم اسی حکمت عملی کے تحت اختیار کی گئی، اس میں کامیابی نہ ملنا الگ معاملہ ہے، پی ٹی آئی کو چلانے والوں نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف سے قرضوں کی سہولت نہ ملے۔ یہ حکمت عملی بہت پہلے سے اپنائی گئی تھی، شوکت ترین اور کے پی کے وزیر خزانہ تیمورجھگڑا کی باتیں اور کوششیں لوگوں کو یاد ہوں گی، آئی ایم ایف آفس کے باہر مظاہرہ کرانے کی کوشش بھی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔

موجود حکومتی سیٹ اپ کو ناجائز ثابت کرنا، یہ بیانیہ پھیلایا گیا کہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کلین سوئپ کیا ہے لیکن اسے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہرایا گیا ہے، فارم سینتالیس کی اصطلاع ایجاد کی گئی یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے زیادہ تر امیدوار فارم پینتالیس کے مطابق شکست کھا گئے تھے ، پھر الیکشن کمیشن کے ذریعے انھیں جعل سازی کرکے فارم سنتالیس میں کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ ڈیجٹل اور سوشل میڈیا پر جو لوگ ریاست مخالف پراپیگینڈا کررہے تھے۔

 ان کے خلاف ہونے والی قانونی کارروائیوں کو لے کر اسے صحافت، آزادی اظہار اور انسانی حقوق سے جوڑ کر ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی جیسے ملک میں میڈیا پر پابندیاں عائد ہیں، بے گناہ لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے ۔ پی ٹی آئی کی وکلاء لیڈر شپ ایک کورس کی شکل میں بانی پی ٹی آئی پر درج مقدمات کی من مانی تشریح کرتے ہیں، ایک حکمت عملی کے تحت ایک ہی ریلیف لینے کے لیے مختلف ہائیکورٹس میں درخواستیں دائر کرتی ہے تاکہ ججز کو کنفیوز کرکے کسی نہ کسی طرح کوئی ریلیف حاصل کیا جائے ۔ ایک مقدمے میں ریلیف مل جائے تو دوسرے فیصلے پر تنقید کی جائے۔

اس سیاسی حکمت عملی کا تجزیہ کریںتو کم از کم اسے جمہوری سیاست تو نہیں کہا جاسکتا، اسے صرف بیانئے کی جارحانہ حکمت کا نام دیا جاسکتاہے جس کا مقصد صرف ایک شخصیت اور مخصوص مائنڈ سیٹ کی جیت ہے لیکن اسے ریاست اور عوام کے مفادات کے تحفظ کی سیاست قرار دینا مشکل لگتا ہے۔ غیرممالک میں بھی یہی سٹیریٹجی اپنائی گئی ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی کسی اہم شخصیت یا رکن کانگریس سے بانی پی ٹی آئی کے حق میں بیان دلوانا اور اسے سوشل میڈیا پر پھیلانا، اسی حکمت عملی کی کڑی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی اور ان کے رفقاء کی یہ پالیسی درست یا کامیاب کہی جاسکتی ہے۔ حقائق اسے کامیابی کی سند دیتے نظر نہیں آتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے ذریعے محدود حد تک فائدہ تو لیا جاسکتاہے لیکن طویل المدتی مفاد نہیں لیا جاسکتا، بانی پی ٹی آئی پر درج مقدمات کی صحت پر بھی اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ مقدمات میں ریلیف لینے کے لیے غیرممالک سے زیادہ داخلی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا لازم ہوتا ہے ، جیسے نواز شریف اور شہباز شریف نے بانی پی ٹی آئی اور ان کی کچن کیبنٹ کی غلطیوں سے پیدا ہونے والے موقع سے فائدہ اٹھایا اور فوراً داخلی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی ، جس کے نتیجے میں دوبارہ اقتدار بھی حاصل کیا اورآئینی و قانونی پراسیس کے تحت اپنے مقدمات میں بھی ریلیف حاصل کیا۔ آصف زرداری نے بھی بہترین سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا، انھوں نے سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار بھی برقرار رکھا، بانی پی ٹی آئی کا مقابلہ بھی کیا اور اب مرکز میں اپنا شیئر لے کر اقتدار کے کیک میں سے اپنا حصہ بھی وصول کرلیا ہے ۔

 پی ٹی آئی کی قیادت نے عوام کے کسی اہم ایشو پر کبھی کوئی بات نہیں کی ہے۔ آئین و قانون میں موجود خامیوں کی نہ کبھی نشاندہی کی اور نہ انھیں دور کرنے کے لیے کوئی بل پیش کیا ہے۔پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں اپنے منشور پر عمل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا بلکہ دہشت گردی کی وارداتوں، قبائلی جھگڑوں میں طالبان کی شرکت، پر جب بھی بات کی ، حقائق چھپانے کی کوشش کی ہے۔

حکومت کی خارجہ پالیسی پر بھی پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کبھی بات نہیں کی ہے، شاید ان رہنماؤں کا ویژن اتنا وسیع و ہمہ گیر نہیں ہے کہ وہ خارجہ امور کی نزاکت، حساسیت اور اہمیت کا ادراک کرسکیں یا پھر وہ ان امور پر بات کرنا نہیں چاہتے حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن شیڈو حکومت ہوتی ہے، اگر اپوزیشن اپنا یہ کردار ادا نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کے حقیقی مینڈیٹ کو اہمیت نہیں دے رہی ہے یا وہ ٹریژری بینچز کو من مانی کرنے کا فری لائسنس عطا کررہی ہے۔

بانی پی ٹی آئی اور ان کے قریبی رفقاء کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا تاثر ایک اینٹی اسٹیٹ پارٹی کی صورت اختیار کرگیا ہے۔کسی سیاسی پارٹی اور اس کی قیادت کے لیے ایسا تاثر زہر قاتل سے کم نہیں ہے۔ افغانستان، طالبان اور ٹی ٹی پی کے بارے میں بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھیوں کاطرز عمل اور سیاست پاکستان کے ’’وائٹل انٹرسٹ‘‘ کے برعکس ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی دانستہ یا نادانستہ سیاسی حکمت عملی نے پاکستان کی انٹیلی جنشیا کو بھی یہ تاثر دیا ہے کہ وہ افغانستان کے مفادات کو پاکستان کے مفادات پر ترجیح دیتی ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار پاک فوج کے افسروں و جوانوں کی شہادتوں پر بانی پی ٹی آئی اور ان کے رفقاء نے کبھی افسوس اور دکھ کا اظہار نہیں کیا، پولیس کے شہدا ہوں یا عام شہریوں کی شہادت ہو، وہ کبھی کسی شہید کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے ہیں اور یہ روایت اب تک قائم ہے۔ الٹا پی ٹی آئی سے ہمدرد سوشل میڈیا کے ٹائیگرز نے جو کردار ادا کیا ہے ، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیںہے۔خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کے بیانات بھی قابل گرفت ہیں۔ علی امین گنڈا پور کئی مقدمات میں مطلوب ہیں، اس کی وجہ بھی انھیں اچھی طرح معلوم ہیں۔

پی ٹی آئی کو اپنی سیاست کے بارے میں خوداحتسابی کے عمل سے گزرنیکی ضرورت ہے۔ایسا کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہونی چاہیے۔سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت مثبت سیاست کرتے ہوئے اچھی لگتیں ہیں۔ سیاسی اختلافات ملک کو آگے لے جانے کی حکمت عملی پر ہوتے ہیں۔ریاست کی وحدت اور اقتدار اعلیٰ کی حفاظت و تکریم کے معاملے میں سب متفق ہوتے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ یا فوج کو سیاسی امور میں دخل نہیں دینا چاہیے یا اعلیٰ عدلیہ کو غیرجانبدار ہونا چاہیے یا الیکشن کمیشن کو خودمختاراور غیرجانبدار ہونا چاہیے، انتخابی عمل شفاف ہونا چاہیے، ان ایشوز پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔

سب کو اپنے آئینی و قانونی حدود میں رہنا چاہیے لیکن ان اہداف اور مقاصد کو حاصل کرنا، سیاسی جماعتوں ، ان کی قیادت اور سیاسی ورکرز کا کام ہے۔ میں تو یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ پاکستان کی ساری سیاسی قیادت کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کسی نہ کسی حوالے سے اقتدار کا مزہ چکھ چکی ہے۔

نظام کی خرابیاں ان سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں لیکن کیا کسی نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے آئین سازی سے لے کر قانون سازی تک کوئی کام کیا؟گراس روٹ لیول پر پٹواری ، تھانہ ، کچہری تک سسٹم میں ہزاروں نقائص موجود ہیں، انھیں ختم کرنے کے لیے کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔ تھانوں کی حوالاتوں میں قیدی قتل کردیے جاتے ہیں، سیشن کورٹ میں پیشی کے دوران قتل وغارت ہوجاتی ہے لیکن کسی نے سسٹم کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔اس میں ساری سیاسی قیادت قصوروار ہے۔

بات پی ٹی آئی کی قیادت کی بات ہورہی ہے، میرا تو مشورہ یہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی جتنا جلد ہوسکے،اپنے سیاسی نظریات و فکر پر ازسرنو غور کریں،افغانستان، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے بارے میں ٹھوس اور دوٹوک موقف عوام کے سامنے رکھیں۔کبھی چین کا سسٹم لانے، کبھی انگلینڈ کا نظام پسند کرنے ، کبھی سکینڈے نیویا کی جمہوریت کے گن گانے، مہاتیر محمد، طیب اردوان کی تعریف کرنے ، بائیڈن اور ڈونلڈ لو پر تنقید کرنے جب کہ ٹرمپ اور گرنیل کی واہ واہ کرنے سے معاملات درست نہیں ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں