گزشتہ مضامین میں بارہا اعادہ کیا گیا کہ صیہونیت انیسویں صدی میں یورپ میں پروان چڑھنے والا قوم پرست نسلی برتری کا نظریہ ہے۔ جس طرح نازیت ، فسطائیت ، سیٹلر کولونیل ازم کے نظریات یورپ کی محضوص فضا اور حالات کی کٹھالی میں ڈھلے۔اگرچہ سیکولر ازم ، لبرل ازم اور کیمونزم بھی مغرب میں ہی پروان چڑھے مگر ان تینوں نظریات کی پیدائشی وجوہات ، دائرہ اثر اور عروج و زوال ایک الگ موضوع ہے۔
فی الحال ہم قوم پرستانہ نسل پرستی کے بطن سے جنم لینے والے نظریات پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہوئے دیکھیں گے کہ نازیت ، فسطائیت و صیہونیت کتنے یکساں اور باہم کس قدر معاون ہیں۔
نسل پرستانہ نظریات کی مماثلتی بحث آگے بڑھانے سے پہلے ایک یہودی نژاد اسرائیلی اسکالر ایلان پاپے کا تعارف کرانا مناسب رہے گا۔آپ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایگزیٹر میں مرکز برائے مطالعہِ فلسطین کے سربراہ ہیں۔عبرانی ، عربی اور انگریزی پر یکساں دسترس ہے۔مشرقِ وسطی کی سیاست اور اسرائیل فلسطین تنازعے کے موضوع پر پندرہ سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔دنیا بھر میں توسیعی لیکچرز اور جامع گفتگو کے لیے بلائے جاتے ہیں۔فلسطین نواز علمی حلقوں میں ان کی بات دھیان سے سنی جاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے ایلان پاپے نے الجزیرہ کو ایک تفصیلی انٹرویو میں کہا کہ ’’ حالانکہ وہ مغرب کی تاریخی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس بار الیکٹرونک ، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر نسل کشی کی براہِ راست تصویر کشی کے باوجود اس سانحے سے مغرب کی مکمل بے تعلقی نے خود مجھے بھی بھونچکا کر دیا ۔
ایلان پاپے کے مطابق اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک نئی طرز کی صیہونیت ہے۔یہ پرانے فیشن کی صیہونیت کے مقابلے میں زیادہ متشدد ، انتہاپسند اور بے صبر ہے اور وہ سب کچھ مختصر وقت میں لپکنا چاہتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اس کے پرکھے بتدریج پیش قدمی کی حکمتِ عملی پر یقین رکھتے تھے۔
صیہونیوں کی موجودہ نسل انیس سو اڑتالیس کے ایجنڈے کی برق رفتار تکمیل کے لیے بگٹٹ دوڑ رہی ہے اور اپنے تئیں ایک عظیم یہودی سلطنت بننے کی ہوس میں اردگرد کے علاقوں کو سرعت سے ہتھیانے کی عجلت میں ہے۔ فوری ہدف یہ ہے کہ آس پاس والوں کے دل میں اپنی بے مہار طاقت کا اتنا خوف بٹھا دو کہ اگلے کم ازکم پچاس برس تک کوئی بھی علاقائی ریاست اسرائیلی توسیع پسند ایجنڈے کی جانب آنکھ بھر کے نہ دیکھ سکے۔
مگر تاریخ کے تھوڑے بہت مطالعے سے میں نے جو کچھ سیکھا ہے۔اس کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہم صیہونیت کے بھڑکتے چراغ کی آخری لو دیکھ رہے ہیں ۔جیسے کسی قریب المرگ شخص کا چہرہ موت سے ذرا پہلے ہشاش بشاش سا لگتا ہے۔ صیہونیت کی نئی شکل اسی کیفیت سے گزر رہی ہے۔
کسی بھی نوآبادیاتی طاقت یا سلطنت کے ناگزیر زوال کی ایک روشن نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آخری دور میں نہائیت سخت گیر رویوں اور اندھا دھند خواہشات کے جال میں پھنس جاتی ہے اور پھر یہ ناقابلِ برداشت بوجھ سنبھالتے سنبھالتے آخری بار گڑ پڑتی ہے۔یہ آخری مرحلہ کتنا قلیل یا طویل ہوتا ہے اس کا دارو معروضی حالات کی رفتار پر ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اختتام بیس دن میں ہو جائے گا یا بیس برس میں۔مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سفر زوال کی شاہراہ پر ہی ہو رہا ہے۔
اس وقت اسرائیل اور صیہونیت کا مستقبل امریکا کے اندرونی و بیرونی مستقبل سے نتھی ہے۔ میں اسے اچھی خبر کہوں گا کہ حالات کا سنبھالنا ٹرمپ جیسے مسخروں اور ایلون مسک جیسے پاگلوں کے بس سے باہر ہے۔ایسے لوگ امریکی معیشت اور اس کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کے تیئے پانچے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے زوال کے تاریخی عمل کو تیزتر کر دیتے ہیں۔دونوں صورتوں میں مشرقِ وسطی کے معاملات میں امریکی کردار اور اثر و نفوذ سکڑتا جائے گا۔اس کی پہلی قیمت اسرائیل کی نئی صیہونی سوچ اور پالیسیاں ادا کریں گے۔مگر یہ ایک طویل المیعاد نتیجہ ہے۔فی الحال اگلے دو تین برس خطے میں خوب دھماچوکڑی مچے گی اور اختتامی باب خاصا برا ہو گا۔
یہ مسئلہ محض غزہ میں جنگ بندی وغیرہ وغیرہ سے حل ہونے والا نہیں۔ابھی تو ہمیں یورپ میں فسطائیت اور نیونازی تحریک کا احیا دیکھنا ہے۔ عربوں کی اخلاقی و مادی کرپشن کا نتیجہ بھگتنا ہے۔ یہ صورتِ حال مختصر مدت کے لیے اسرائیلی صیہونیت کے لیے بھی سازگار ہے۔جوں جوں موجودہ طاقت ور شمالی کرے ( مغربی دنیا ) کے مقابلے میں جنوبی کرہ زور پکڑتا جائے گا طاقت کے توازن کا ناگزیر بدلاؤ اسرائیل کو اور تنہا کرتا چلا جائے گا۔ابھی جنوبی کرے میں پنپنے والی مزاحمتی تحریک منظم نہیں ہے مگر بدلتے وقت کے تاریخی تقاضے اسے منظم ہونے پر مجبور کر دیں گے۔
اب آپ یہ دیکھیے کہ مغرب میں یہود دشمنی کی احیائی تحریک اور نئے صیہونی اس پر متفق ہیں کہ یہودیوں کے لیے مغرب میں رہتے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ وہ فلسطین میں آباد ہو جائیں۔دونوں تحریکیں اسلاموفوبیا کے معاملے پر بھی ہمقدم و ہم آواز ہیں۔یورپ میں انتہاپسندوں کی ریلیوں میں اب نازی پرچموں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جھنڈے بھی نظر آتے ہیں۔
ہالوکاسٹ کے نازی تجربے کی روشنی میں بیس برس پہلے تک ایسے کسی نازی صیہونی اتحاد کے بارے میں سوچنا بھی پاگل پن سمجھا جاتا۔انھی تضادات کے سبب امریکا میں آباد یہودیوں کی موجودہ جوان نسل اسرائیل کے حق میں اب وہ جذبات نہیں رکھتی جو ان کے والدین کے تھے یا ہیں۔آخر ٹرمپ اور ایلون مسک کے بعد بھی تو کوئی آئے گا۔ضروری تو نہیں کہ وہ اسرائیل کی صیہونیت پرست توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ہی حامی ہو۔
اسرائیلی نظامِ تعلیم اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ نسل پرست ، انسان دشمن اور انتہاپسند بنا رہا ہے اور اس نظامِ تعلیم سے پیدا ہونے والی نسل اپنے اور دوسروں کے لیے یکساں خطرناک ہے۔ محض یہ فرض کرنے سے اب کام نہیں چلے گا کہ اس نسل کا دل سوشل میڈیا پر تیرتی نسل کشی کی وڈیوز دیکھ کے پسیج جائے گا۔اسرائیل چونکہ نفرت کی بنیاد پر بنا ہے لہٰذا اس کا نفرتی ڈی این اے ایک سے دوسری نسل میں کامیابی سے منتقل کیا گیا ہے اور اسی سبب ریاست کا زوال پذیر ہونا ایک لازمی حقیقت ہے ‘‘۔
آپ نے ایلان پاپے کے خیالات پڑھے۔ اگلے چند مضامین میں ہم اس پر دھیان دیں گے کہ کیسے ایک نظریہ اچھے بھلے انسانوں کو غیر انسان یا نیم انسان بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔یہ سب ہم صیہونی نظریے کے ارتقا اور عالمی و علاقائی سیاست پر اس کے اثرات کے عدسے سے دیکھیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)