ہر سال جنوری کا مہینہ فلم اسٹار سلطان راہی کی یاد دلاتا ہے، ان کی زندگی کا چراغ بجھا تو کئی گھرانوں پر اس کا اثر پڑا، دراصل وہ خاموشی سے لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ سلطان راہی تو فن کے شہید تھے، ان کی کسی شخص سے کوئی عداوت نہیں تھی وہ اپنے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے شب و روز اسٹوڈیو میں کام کرتے تھے پھر فلم انڈسٹری پر زوال آ گیا، فلم پروڈیوسر، ڈرامہ پروڈکشن میں آ کر ڈرامہ سیریل بنانے لگے۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں بننا بند ہوگئیں۔ سلطان راہی انڈسٹری کے اکلوتے فنکار تھے جن کی وجہ سے ایورنیو اور شباب اسٹوڈیو میں دن رات شوٹنگ ہوتی۔ سلطان راہی نے کولہو کے بیل کی طرح کام کیا کہ مزدوروں اور ناداروں کے گھر آباد رہیں کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا، کبھی کسی پروڈیوسر سے بقایا واجبات کا تقاضا نہیں کیا۔
وہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئن کے مقابل بڑی کامیابی سے کام کرتے۔ 1970 سے لے کر 1996 تک انھوں نے پنجابی فلموں کے سپر اسٹارکی حیثیت کو برقرار رکھا، انھوں نے پنجاب میں پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر راج کیا۔ پروڈیوسر حضرات ان کی بہت عزت کرتے تھے مگر انھوں نے کبھی تکبرکا مظاہرہ نہیں کیا۔ انتہائی نیک انسان تھے شکل اور جسمانی لحاظ سے وہ ہیرو نہیں لگتے تھے۔ 1990 کے بعد عمر رسیدہ بھی ہوگئے تھے مگر پاکستان میں ان کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں نہیں،کروڑوں میں تھی، جس میں صوبہ پنجاب قابل ذکر تھا۔
سلطان راہی بھارت کے صوبے یوپی (سہارن پور) میں پیدا ہوئے، پیار سے انڈسٹری میں لوگ انھیں ’’آغا جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ راقم کی ان سے تفصیلی ملاقاتیں لاہور اورکراچی میں کئی مرتبہ ہوئیں۔ کراچی میں بننے والی فلم ’’سڑک‘‘ کے حوالے سے ان سے کراچی کے ایک بڑے مقامی ہوٹل میں ہوئی، ان ہی دنوں میں ایک ناخوشگوار واقعہ کراچی میں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ’’سڑک‘‘ کی شوٹنگ نہ ہو سکی اور ہماری ان سے تقریباً 2 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی دوپہرکا کھانا ہم نے سلطان راہی کے ساتھ کھایا انھوں نے اپنے ایک خاص پرستار اقبال راہی کو بزنس روڈ بھیجا اور وہاں سے پائے اور نہاری منگوائی۔
سلطان راہی ہر لحاظ سے بہترین انسان تھے دوران انٹرویو خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلم کے سپرہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب کہ ہم نے ان سے برجستہ پوچھ لیا کہ ’’ راہی صاحب ! آپ کی اردو اتنی لاجواب ہے کہ بیان سے باہر‘‘ زور سے ہنستے ہوئے کہا کہ ’’ بیٹا کمال کرتے ہو جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا میری مادری زبان اردو ہے اور میرا تعلق یوپی سے ہے۔ ہجرت کرکے والدین راولپنڈی آگئے تھے میرا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا۔ اچھے نمبروں میں میٹرک کیا۔ راولپنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیل مین کی حیثیت سے کام کرتا تھا، دکان کے مالک فرحت صاحب تھے جو بہت نیک آدمی تھے اور میرا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔
1968 تک زندگی بہت محنت طلب رہی پھر فلمی صنعت کا رخ کیا اور یہاں اخلاق احمد انصاری نے مجھے رہائش دی جو عمر رسیدہ تھے اور ہمارے والد صاحب کے جاننے والے تھے، ان کا تعلق دہلی سے تھا، انھوں نے مجھے رہنے کے لیے ایک بہت خوبصورت کمرہ دیا اور پھر لاہورکا ہوکر ہی رہ گیا۔ فلم ’’باغی‘‘ میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔ سدھیر بہت پیارے انسان تھے جونیئر سے بہت محبت سے پیش آتے تھے، سدھیر نے ہی اقبال کاشمیری سے تعارف کروایا اور میں فلم ’’بابل‘‘ میں کاسٹ ہوگیا فلم ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی جس نے میری زندگی بدل دی۔
میں سدھیر کی محبت کا مقروض ہوں وحید مراد نے میری ملاقات ہدایت کار اسلم ڈار سے کروائی انھوں نے فلم ’’بابل‘‘ میں میری کارکردگی دیکھتے ہوئے فلم ’’بشیرا‘‘ میں مرکزی کردار دیا۔ اس فلم نے میری تقدیر بدل دی۔ میں اسلم ڈار کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا پھر ’’ مولا جٹ‘‘ ہٹ ہوئی۔
سدھیر بہت اچھے انسان تھے پیار میں ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے۔ اقبال یوسف کی فلم ’’ان داتا‘‘ میں ان سے کئی مرتبہ ڈانٹ کھانے کا اتفاق ہوا۔ اداکار محمد علی اپنی مثال آپ تھے آسیہ نے میرے ساتھ بحیثیت ہیروئن کے کام کیا ۔ آسیہ نے مجھے سدھیر، علی بھیا کو رات کے کھانے پر مدعوکیا۔ ان کی اردو بھی بہت اچھی تھی اور خوب مشکل الفاظ استعمال کرتی تھیں میں نے ایک دن آسیہ سے پوچھ لیا کہ ’’ اردو بہت ہی خوبصورت بولتی ہو واہ ! کیا بات ہے‘‘ تو آسیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’ میری مادری زبان اردو ہے‘‘ ان کے والدین نے لکھنو سے پاکستان ہجرت کی تھی۔
ممتاز رنگ کے حوالے سے بہت گوری اداکارہ تھیں انھوں نے جب فلم ’’کالیا‘‘ میں کام کیا تو لوگ ہنستے تھے کہ گوری لڑکی کالیا میں کام کر رہی ہے ۔ علی سفیان کے مطابق سلطان راہی نمازی پرہیزگار انسان تھے، انھوں نے اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اکثر امامت کے فرائض انجام دیتے، قرأت بہت اچھی تھی۔ رمضان المبارک میں اسٹوڈیو میں بڑی افطاری کا اہتمام کرتے گھر پر تراویح پڑھایا کرتے تھے۔ یہ بات اداکار یوسف خان نے راقم کو بتائی تھی۔ سلطان راہی نے 500 کے قریب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔