خلائی سولر اسٹیشن!

زمین سے 36ہزار کلومیٹر اوپر خلا میں ایک سولراسٹیشن قائم کیا جا رہا ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی ۔


راؤ منظر حیات January 18, 2025
[email protected]

چین نے سائنس کی دنیا میں ایک محیر العقول کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خلا میں ایک سولر پاور اسٹیشن بنانے کا اعلان ۔ اس سنگ میل کو چین کا Manhattan Project بھی کہا جا رہا ہے ۔ اس نام کا پروجیکٹ امریکا نے حد درجہ خفیہ طریقے سے ایٹم بم بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔چین کے حالیہ اعلان کردہ منصوبے کی جزئیات پیش کرتا ہوں ۔ جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ترقی یافتہ ملک کس جانب روانہ ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں ۔

زمین سے 36ہزار کلومیٹر اوپر خلا میں ایک سولراسٹیشن قائم کیا جا رہا ہے جس کی لمبائی ایک کلومیٹر ہو گی ۔ یہ سورج کی توانائی کو اپنے اندر محفوظ کرے گا۔ اس کے بعد اسے چین کے ایک ٹرانس میٹر سے منسلک کر دے گا ۔ اس سولر اسٹیشن کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ 24گھنٹے کام کرے گا ۔

دن اور رات میں اس کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اسٹیشن صرف چین کو اتنی توانائی مہیا کرے گا جو پوری دنیا میں پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے ایک سال میں پیدا کی جاتی ہے۔ ذرا سوچیئے کہ اگر توانائی کا اتنا بھرپور ذریعہ موجود ہو تو پھر آبی ڈیم اور بجلی پیدا کرنے کے دوسرے ذرایع کس قدر غیر اہم ہو جائیں گے۔ جو بجلی ‘ سپیس اسٹیشن میں موجود ہو گی اسے مائکروویوز میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر اسے زمین پر منتقل کرنا حد درجہ آسان ہو جائے گا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ اسٹیشن ایک سو بلین کے وی ایچ پیدا کرے گا ۔

چین کے سائنسدانوں نے اس سولر اسٹیشن کو خلا کا Three Gorges Dam قرار دیا ہے ۔ یہ آبی ڈیم چین نے 2008میں بنایا تھا ۔ اس کی لاگت 35بلین ڈالر آئی تھی اور یہ Yangtze دریا پر واقع ہے۔ اس آبی ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی قوت 95 Twhسالانہ ہے ۔اور یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم شمار کیا جاتا ہے ۔ ذرا اندازہ فرمائیے کہ خلائی اسٹیشن اس عظیم آبی ڈیم سے بھی بڑھ کر بجلی پیدا کرے گا ۔ چینی سائنسدانوں نے اس عظیم کارنامے کو خود سرانجام دیا ہے ۔ خلائی اسٹیشن کے تمام پرزے چین میں تیار کیے گئے ہیں ۔ انھیں راکٹس کی مدد سے خلا میں بھیجا جائے گا ۔

جہاں سائنسدان اور خلائی ہوا باز اس کو ایک اسٹیشن میں تبدیل کر دیں گے۔ انسانی تاریخ میں یہ ایک سنگ میل ہو گا کیونکہ اتنا اچھوتا کارنامہ کسی بھی ملک نے اب تک سرانجام نہیں دیا ۔ چینی قیادت اور سائنسدانوں کا کمال دیکھیے کہ انھوں نے تمام جزئیات ترتیب دینے کے بعد اس کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے سے پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکا ‘جسے ناز ہے کہ وہ ایک سپر پاور ہے سائنس اور تحقیق کی دنیا میں کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی انتظامیہ اور خلائی سائنسدانوں نے انگلیاں چبا لی ہیں کیونکہ وہ یہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں تو یہ بھی عرض کروں گا کہ چین اس خلائی اسٹیشن کے بعد دنیا میںترقی کی دوڑ میں سب سے آگے موجود ہو گا۔ چینی حکام وہ کام کر رہے ہیں جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔

ہمارے ملک میں کسی نے بھی ایک کلومیٹر لمبے اس خلائی سولر اسٹیشن کی طرف غور نہیں کیا ۔ اتنے بڑے کارنامے پر کسی چینل نے کوئی پروگرام نشر نہیں فرمایا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ وہ محیر العقول کارنامہ جو ہمارے چینی دوستوں کے سر کا تاج بن جائے گا ۔ اس پر ہمارے حکمران طبقے اور اداروں نے معمولی توجہ تک نہیں دی۔ دراصل ہماری ترجیحات ‘ ترقی یافتہ ممالک سے بالکل برعکس ہیں ۔ ہمارا حکمران طبقہ حد درجے عیاری سے ملک چلاتا رہا ہے اور پاکستان کو ترقی دینا یا اسے آگے بڑھانا ان کی ذہنی سوچ سے متضاد ہے ۔

غور فرمائیے کہ ہم اپنے حد درجہ زٹیل میڈیا پر کیا دیکھتے ہیں یا ہمیں کیا دکھایا جاتا ہے یا ہمیں کس طرح کی عمومی سوچ کا مالک بنا دیا گیا ہے؟ حضور ہمارا میڈیا خبریں نہیں چھاپتا یا بتاتا بلکہ ایک بدمست دیو کی طرح بدنظمی سے چنگھاڑتا ہے ۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا ایک ہی حال ہے ۔ گزشتہ دس سال کی اہم ترین خبریں نکالیے جو بدقسمت عوام کو دیکھنی پڑی ہیں۔ کبھی وزیراعظم کو خط نا لکھنے کی پاداش میں سزا سنائی جاتی ہے ۔

اس کے سیاسی مخالف بغلیں بجاتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ کبھی عدلیہ کے قلم سے پاناما لیکس کی ایسی سزا سنائی جاتی ہے جو مکمل طور پر بے جواز نظر آتی ہے ۔ بدقسمتی سے میں نے وزیراعظم کو پاناما لیکس میں برطرف ہونے کی خبر ٹی وی پر خود سنی تھی ۔ چند مخصوص رپورٹر ‘ دیوانوں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کر رہے تھے کہ وزیراعظم کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ جذباتیت اور غیر متوازن رویہ ہمیں برباد کر چکا ہے ۔ ہمارے کچلے ہوئے معاشرے میں دلیل پر بات کرنی مکمل طور پر حماقت ہے۔ آج بھی یہی حال ہے ۔

کچھ عرصہ پہلے سنگاپور سے میرے ایک دوست لاہور آئے ۔ اخبار پڑھا اور کمرے سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا۔ مقررہ وقت پر ملنے کے لیے گیا تو واپسی کا ٹکٹ کروانے میں مصروف تھے۔ حیران رہ گیا کیونکہ وہ تو صرف ایک دن پہلے لاہور آئے تھے ۔ اگلے ایک ہفتہ ان کی انتہائی کاروباری مصروفیات تھیں۔ وجہ پوچھی تو انھوں نے ایک انگریزی اخبار میرے سامنے رکھ دیا ۔ اس کی شاہ سرخیاں کچھ اس طرح کی تھیں۔ آج احتساب کے ادارے نے حد درجہ اہم لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ ساتھ ہی یہ کہ آج دہشت گردوں نے پچیس سے تیس لوگوں کو بس سے اتار کر قتل کر دیا ۔

ان کے شناختی کارڈ پہلے چیک کیئے ۔ جب ان کا تعلق ایک مخصوص صوبے سے نکلا تو سڑک کے کنارے بے دردی سے انھیں ذبح کر دیا گیا ۔ اسی اخبار کے بیک پیج پر درج تھا کہ ایک بیٹے نے جائیداد کے لالچ میں اپنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دیا ۔ صرف ایک دن کا اخبار پڑھ کر ‘ میرا سنگا پور کا دوست اعصابی طور پر شل ہو کر رہ گیا ۔ اس نے وہیں فیصلہ کیا کہ اس ملک میں کسی صورت ہوٹل سے باہر نہیں نکلے گااور اگلے ہی دن واپس روانہ ہو جائے گا۔

لاکھ کوشش کی اپنے اس کاروباری دوست کو بتا سکوں کہ یہ تو معمول کی خبریں ہیں ۔ ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کی زندگیوں میں بھیانک خبریں معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ترقی اور خوشی کی خبریں ملنا تقریباً معدوم ہیں۔ دوست نے سوال کیا کہ آپ اس ملک میں اور اتنے خطرناک ماحول میں سانس کیسے لے رہے ہیں ۔

جواب تھا کہ اس پر خطر ماحول کا عادی ہو چکا ہوں اور مجھے اب کسی قسم کی‘ کسی طرف سے خطرے کی بو تک محسوس نہیں ہوتی ۔ سنگا پور سے آیا ہوا رفیق ششدر رہ گیا ۔ کہنے لگا کہ یا تو پاکستان کے تمام لوگ اعصابی طور پر ختم ہو چکے ہیں یا انھوں نے کبھی ترقی یافتہ ملک دیکھا ہی نہیں ہے۔ انھیں ادراک ہی نہیں ہے کہ امن اور ترقی یافتہ خطے کیسے ہوتے ہیں ۔ لاکھ روکنے کی کوشش کی مگر وہ تمام میٹنگز ختم کر کے اگلے ہی دن واپس چلا گیا ۔

 اردگرد کے ماحول پر غور کیجیے ۔ جواب دیجیے کہ کیا ہم واقعی انسانی سطح پر زندہ ہیں یا حیوانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں ۔ آپ کو جواب خود بخود مل جائے گا۔ چند دن اسلام آباد میں گزار کر آیا ہوں ۔ اسی نوعیت کی افواہیں جو آ ج سے تیس چالیس سال پہلے اس سازشی شہر میں گردش کر رہی تھیں وہی نام بدل کر بالکل اسی طرح بیان کی جا رہی تھیں جیسے وقت رک چکا ہے ۔ حکومت بس جانے والی ہے ؟ نئے وزیراعظم کا انتخاب بس ہو ہی چکا ہے ؟ نئے وزراء کے نام بھی تقریباً فائنل ہو چکے ہیں؟ ہاں فلاں مشیر کے بھائی نے ‘ ایک ٹھیکے میں اتنے کروڑ روپے وصول کیے ہیں ؟ اس طرح کی بدنما افواہیں یا خبریں تواتر سے اسلام آباد کی فضا میں ارتعاش پھیلا رہی تھیں۔اس سے آگے کیا بات کروں ۔ جن لوگوں کو میں کردار کی بلند مسند پر فائز کرتا تھا وہ بھی کسی نہ کسی ادارے یا بڑی کاروباری شخصیت کے طفیلی نظر آتے ہیں۔

موجودہ حکومت صرف اشتہارات کی بنیاد پر اسی طرح کے کارنامے سرانجام دے رہی ہے۔ جو ان کا سابقہ وطیرہ ہے۔اڑان نامی پروگرام میں اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت چند برس بعد ایک ٹریلین ڈالر کی ہو جائے گی۔ حضور عرض ہے ہندوستان کی صرف ایک ریاست مہاراشٹرا ‘ پانچ سو بلین ڈالر کی معیشت رکھتی ہے اور صرف دو تین سال میں صرف ایک صوبہ ایک ٹریلین ڈالر سے اوپر نکل جائے گا۔ پر کیا بات کرنی ۔ بادشاہ جو کہتا ہے وہ سچ ہے۔ چینی حکام تو بے وقوف ہیں کہ خلا کو مسخر کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ انھیں صرف اشتہارات دے کر اپنی ترقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ یہ فن انھیں ہمارے حکمرانوں سے ٹیوشن کے ذریعے ضرور سیکھنا چاہیے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں