خوش فکر، شگفتہ خیال … اعظم کمال

مصرع ثانی کی مکمل جوں کا توں دہرانے کے بجائے اُس میں قافیہ تبدیل کیا ہے


صدام ساگر January 18, 2025

دنیائے اُردو ادب میں غزل اپنے آغاز سے لے کر آج تک جن مختلف نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی اپنے ارتقائی مراحل طے کرتی رہی، اس سفر میں غزل کو مختلف تجربات سے بھی گزرنا پڑا، ایسے تجربات میں ایک ’’ رجوعی غزل ‘‘ کا تجربہ بھی سامنے آیا۔

جس کے حوالے سے ڈاکٹر عاصی کرنالی لکھتے ہیں کہ ’’ کوئی بھی صنفِ سخن ہو، اپنے آغاز سے وہ مختلف اور متعدد تجربات سے گزرتی ہے پھر جو تجربے اس صنف کے مزاج کو راس آتے ہیں، قائم رہ جاتے ہیں اور اس عہد کی روایت بن جاتے ہیں تب یہ روایت سفرکرتے ہوئے اگلے عہد تک پہنچتی ہے۔ 

اس نئے عہدکا ذوق اس روایت کو پیراستہ کر کے اپنے عہد کی ضرورت کے مطابق اس روایت کا لائقِ حصول حصہ قبول کر لیتا ہے اور اپنی عصریت کے تقاضوں کے مطابق اس روایت کی زمین میں نئے پھول اُگاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔‘‘

اسی طرح رجوعی غزل کے خوش نما تجربے کے بارے میں محسن بھوپالی لکھتے ہیں کہ ’’ شعرائے مقدمین اور بعد کے بعض شعراء نے مروجہ بحروں میں ایک یا دو ارکان یا نصف رکن کم کر کے غزل میں نئے کامیاب تجربے کیے ہیں۔

بعض اساتذہ نے ذوبحرین اور بعض نے ذوقافتین غزلیں کہی ہیں جب کہ پچھلی نصف صدی میں چند ایک شعراء نے مکالماتی غزلیں بھی کہی ہیں جن میں سراج الدین ظفر اور عہدِ حاضر کے شعرا میں عدیم ہاشمی اور امتیاز ساغرکے نام نمایاں ہیں۔‘‘

اسی طرح کا ایک خوبصورت تجربہ عہدِ حاضر کے ایک کہنہ مشق اور صاحبِ اسلوب شاعر اعظم کمال نے ’’ رجوعی غزل‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ یہ تجربہ آج تک کیے گئے تمام تجربے کی بابت بالکل نئی اور مشکل راہ نکالی ہے۔

اس حوالے سے ممتاز ادیب، دانشور، معروف شاعر و نغمہ نگار حمایت علی شاعر اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ نئے اسلوب کا نمایندہ میجر اعظم کمال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ اعظم کی رجوعی غزل اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے، غزل کے میدان میں ایک عرصے کے بعد بغیرکسی ہیت کی تبدیلی کے ایک اچھا تجربہ دیکھنے کو ملا۔

اس تجربے میں اعظم کمال نے اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے جن چیزوں سے اپنا دامن نہایت خوبصورتی سے بچایا ہے وہ درجہ ذیل ہیں۔

1۔ مصرع ثانی کی مکمل جوں کا توں دہرانے کے بجائے اُس میں قافیہ تبدیل کیا ہے،کیونکہ مصرع ثانی کے مکمل جوں کا توں دہرائے جانے کی ایک آدھ مثال فارسی شعراء کے ہاں ملتی ہے۔

2 ۔ قافیہ مصرع ثانی کے درمیان رکھ کر نبھایا ہے۔ مصرع ثانی کے شروع میں قافیہ رکھنے کی مثال بھی ملتی ہے۔

3 ۔ رجوعی غزل کی ترکیب اس سے پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔ یہ نام بھی اعظم کمال کی ہی اختراع ہے۔

4 ۔ اعظم کمال کی ’’ غزلِ نَو‘‘ رجوعی غزل پر لکھی گئی پہلی باقاعدہ مکمل کتاب ہے‘‘ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں ساحل کی بھیگی ریت پر (غزلیات)، لوحِ عروض (علم عروض پر تحقیقی تجربہ)، اشک مسکراتے ہیں ( اُردو نظم کا مجموعہ) اور حال ہی میں ان کا آنے والا مجموعہ ’’معلوم‘‘ جو اُردو غزلیات پر مشتمل ہیں۔

جس کا انتساب انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے نام کیا ہے۔ اس کتاب میں ایک حمد اور ایک نعت کے علاوہ 69 غزلیں شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی بعض غزلوں میں اپنی ذات کے حوالے سے ماحول، معاشرہ اور آفاق پرکھنے کے ساتھ نئے امکانات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے وہ ایسے گھرکی تلاش میں ہے جس کے لیے وہ کئی صدیوں کی مسافت طے کرنے کے باوجود بھی ایک ایسا محبت پرور انسان نفرتوں کی آگ میں جلتا ہوئے ایسے شہر کو دیکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ:

صدیاں گزر گئی ہیں کوئی در تلاش کر

منظر ہوں جس میں جاگتے وہ گھر تلاش کر

پھر نفرتوں کی آگ میں ہر شہر جل گیا

اب دور جنگلوں میں کہیں گھر تلاش کر

اعظم کمال صاحب اپنے فن اور اپنی شخصیت کے اعتبار سے ایک باکمال اور خوش خصال آدمی ہے۔ وہ پاک آرمی میں بطور ’’میجر‘‘ ریٹائرڈ کے باوجود ایک اشاعتی کتب کا ادارہ کمال پبلشرز کے نام سے اوکاڑہ میں قائم کر رکھا ہے۔ میری ان سے پہلی ملاقات آج سے کئی برس قبل بزمِ دوستانِ قلم کے ایک یادگار مشاعرے میں ہوئی۔

اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعرہ بسمل صابری کر رہی تھیں۔ جس کے بعد ہمارے درمیان ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا، جن کا ذکر کرنا میں کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتا ہوں۔ بہرحال میں بات کر رہا تھا، ان کے شعری مجموعہ ’’ معلوم ‘‘ پرتو ان کی غزلیں کلا سیکیت، رومانیت اور ترقی پسندیدیت پر آکر رک نہیں جاتی بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنا رستہ جدیدیت سے قائم کرتی ہیں۔

جن کے بارے میں اس کتاب کے فلیپ میں احمد ساقی لکھتے ہیں کہ’’ معلوم‘‘ کی شاعری سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اعظم کمال نے اپنی روح کی سرگوشی کو سن لیا ہو اور وہ روح، جسم اورکائنات کے باہمی ربط کی کھوج میں مصروف ہوں اور اس تثلیث کی تہہ داریوں میں نامعلوم کی حقیقت کو معلوم کرنے میں سرگرداں ہوں، اس کٹھن راہ میں ان کا وجدان ان کی رہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، میں اسے روایتی تصوف کا نام تو نہیں دے سکتا مگر اسے عرفانِ ذات کا حوالہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔‘‘

اعظم کمال کا رجوعی غزل میں کیا ہوا تجربہ انھیں دنیائے ادب میں ہمیشہ زندہ جاوید رکھے گا۔ آخر میں عہدِ حاضر کے اُستاد الشعرا اور ماہرِ عروض جان کاشمیری کی کتاب ڈوبتے ہاتھ کی فریاد سے ایک قطعہ جو انھوں نے اعظم کمال کی محبت میں کتاب میں تحریرکر رکھا ہے۔

خوش فکر ، یار باش، شگفتہ خیال ہے

وہ حبس کے حصار میں بادِ شمال ہے

سوچا جو میں نے نام کا تصدیق کے لیے

دل سے صدا یہ آئی وہ اعظم کمال ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں