غزہ جنگ بندی، مزاحمت کی فتح

ابتدائی معلومات کے مطابق یہ معاہدہ تین مرحلوں میں انجام پذیر ہوگا


Sabir Karbalai January 19, 2025

سولہ جنوری کو تقریبا پندرہ ماہ کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے فلسطینی مزاحمت کے ساتھ ہونے والے بالواسطہ مذاکرات میں رضا مندی کا اظہارکیا ہے، یعنی جنگ بندی کا معاہدہ ترتیب پا چکا ہے اور اب دونوں فریق اس معاہدے کے مسودے پر رضا مند بھی ہیں۔

ابتدائی معلومات کے مطابق یہ معاہدہ تین مرحلوں میں انجام پذیر ہوگا، جس کا پہلا مرحلہ اتوار انیس جنوری کو شروع ہو کر آیندہ بیالیس دن تک جاری رہے گا۔ ان بیالیس دنوں میں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا جب کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی یعنی دونوں اطراف سے کسی قسم کی کوئی عسکری کارروائی انجام نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ساتھ غزہ کے علاقوں سے مرحلہ وار اسرائیلی غاصب فوج بھی باہر نکل جائے گی۔

 بہرحال یہ معاہدہ انجام پذیر ہوچکا ہے اور اس معاہدے کے عنوان سے پاکستان سمیت کچھ اور ممالک میں سیاسی تجزیہ نگار کہ جن کا جھکاؤ ہمیشہ امریکی سیاست یا امریکا کی جانب رہا ہے وہ سب اس بات پر بغلیں بجانے میں مصروف عمل ہیں کہ امریکی نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی سیاست سے مرعوب ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس معاہدے کا اصل چیمپئین امریکی حکومت یعنی موجودہ صدر بائیڈن اور آنے والا صدر ٹرمپ ہے۔ یہ تجزیہ بالکل حقائق کے منافی ہے۔

 حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی جنگ جوکہ سات اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی تھی۔ پندرہ ماہ مکمل ہونے کے بعد بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل سمیت امریکا اور ان تمام مغربی حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے کہ جو غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ حماس کو غزہ سے مکمل ختم کرنے کی بات کررہے تھے۔

پندرہ ماہ گزرنے کے بعد گزشتہ دو ماہ میں غزہ میں بڑھتی ہوئے مزاحمت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار جیسے قائدین کی شہادت کے بعد بھی حماس غزہ میں بھرپور مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حماس کے پاس 94 اسرائیلی قیدی بھی موجود ہیں جن کو پندرہ ماہ گزرنے کے باوجود امریکا اور اسرائیل کی تمام تر طاقت اور ٹیکنالوجی تلاش کرنے اور بازیاب کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 حقیقت یہی ہے کہ غزہ کی حمایت میں آٹھ اکتوبر 2023 میں جنوبی لبنان کی سرحدوں پرکھلنے والا محاذ آج سے پچاس دن قبل اس لیے جنگ بندی کی طرف چلا گیا کیونکہ یہاں بھی اسرائیل مسلسل شکست پذیر ہوا اور نہ ہی حزب اللہ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اور نہ ہی ان لاکھوں صیہونی آباد کاروں کو شمالی فلسطین میں واپس لانے کی کامیابی حاصل ہوئی جن کو حزب اللہ نے اپنی کاروائیوں کے ذریعے شمالی فلسطین سے نکال باہرکیا تھا۔

یہ صیہونی آباد کار تاحال اپنے گھروں کو واپس نہیں آ پائے ہیں کیونکہ حزب اللہ کے شہید رہنما سید حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ اگر غزہ کے لوگ گھر سے بے گھر ہوں گے تو صیہونی آباد کاروں کو بھی گھروں میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ جنوبی لبنان کے محاذ پر شکست ایک اور بڑی وجہ ہے جس نے امریکا اور اسرائیل کو مجبورکیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کریں اور حماس کی شرائط کو تسلیم کریں۔

ایک اور حقیقت جس کو امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگاروں نے نظر اندازکیا ہے، وہ یمن ہے۔ یمن نے سات اکتوبر کے بعد سے اعلان کیا تھا کہ غزہ کی حمایت کے لیے بحیرہ احمرکے راستوں کو امریکا اور اسرائیل سمیت برطانوی اور ہر اس ملک کے بحری جہازوں کے لیے بند کردیا جائے گا جو غزہ جارحیت میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔

یمن نے پندرہ ماہ سے بحیرہ احمر کے راستوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور بحری بیڑوں کے ساتھ بھی نبرد آزما ہے۔ اسی طرح یمن مسلسل غزہ کی حمایت میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم مراکز تل ابیب، ایلات اور دیگر مقامات پر اپنے جدید ترین میزائلوں اور ڈرون کی مدد سے کامیابی سے نشانہ بنا رہا ہے۔

حال ہی میں تل ابیب میں موجود وزارت جنگ کی ایک اہم عمارت کو یمن کے ہائپر سانک میزائلوں نے نشانہ بنایا ہے۔ اسی طرح امریکا کے جدید ترین ایم کیو نائن ڈرون بھی درجن بھر سے زیادہ مار گرائے ہیں، ایک جنگی جہاز ایف اٹھارہ بھی مارگرایا تھا۔ یمن کی بے مثال مزاحمت نے امریکا اور برطانیہ سمیت اسرائیل کو مجبورکیا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔

 ایک حقیقت عراق کی مزاحمت ہے کہ جس نے مسلسل غاصب صیہونی حکومت کے اہم مقامات کو اپنے میزائلوں اور ڈرون کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ایران کا اہم کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس نے دو مرتبہ وعدہ صادق نامی آپریشن لانچ کیے اور براہ راست غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے اہم فوجی اور جنگی مراکزکوکامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔

ان تمام واقعات نے جنگ کی صورتحال کو غزہ کے حق میں اور حماس کے حق میں بدلنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اس بات کا اظہار خود حماس کی قیادت نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کیا ہے۔ حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے ایران، عراق، لبنان، یمن کی مزاحمت کا زبردست انداز میں شکریہ ادا کیا ہے اورکہا ہے کہ یہی وہ مزاحمت ہے جس نے حماس کی مزاحمت کو مضبوط کیا اور غاصب صیہونی حکومت کو جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔

 ایک اور حقیقت جسے امریکی سیاست سے مرعوب تجزیہ نگار فراموش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ خود غزہ میں گزشتہ چند ماہ میں ہونے والی بے مثال مزاحمتی کارروائیاں ہیں جن کے بارے میں خود اسرائیلی ذرایع ابلاغ اعتراف کرتے رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج ان مزاحمتی کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ چند ہفتوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں نے جنگ کے رخ کو بدلنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ حماس کی اس قوت اور مضبوطی کا ذکر خود امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو بھی کرنا پڑا۔

بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ اگرکچھ تجزیہ نگاروں کی بات کو مان لیا جائے کہ امریکی حکومت بہت طاقتور ہے، اسرائیل کے پاس بے پناہ طاقت اور ٹیکنالوجی ہے اور نہ جانے بہت کچھ تو پھر سوال تو بہت سے اٹھتے ہیں لیکن ایک سوال یہ ہے کہ اگرکوئی طاقتور ہو اور دنیا کی تمام تر ٹیکنالوجی اور قوت سے لیس ہو تو پھر وہ جنگ بندی کا معاہد ہ کیوں کرے گا ؟ ۔

آخر اس دنیا کی طاقت کو لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس سوال کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے یعنی مزاحمت ہے جس نے ان تمام طاقتوں کو مجبورکیا ہے کہ وہ جنگ بندی کا معاہدہ کریں ورنہ اگر ان کی قدرت ہوتی تو وہ جنگ بندی نہیں بلکہ فتح کا اعلان کرتے، لٰہذا اب چونکہ جنگ بندی ہوئی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ غزہ اور مزاحمت کی کامیابی ہے کہ جس نے دنیا کی پوری طاقت کو اپنے سامنے جھکا دیا اور معاہدے پر مجبور کر دیا، یہ سب کچھ نہ تو بائیڈن کی سیاسی حکمت عملی ہے اور نہ ہی نئے امریکی صدر ٹرمپ کا کمال ہے۔ 

اگرکسی کا کمال ہے تو صرف اور صرف اسلامی مزاحمت ہے جس کا مرکز و محور فلسطین اور اس کے ساتھی و مدد گار ایران، حشد الشعبی عراق، حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن ہیں، لٰہذا غزہ جنگ بندی اسلامی مزاحمت کی فتح ہے۔یہ مزاحمت ختم نہیں ہوئی‘ ظلم و جبر کے خلاف یہ مزاحمت ہمیشہ جاری رہے گی۔ اگر اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ جارحیت کی تو اسے پھر اسی مزاحمت کا زیادہ شدت سے سامنا کرنا پڑے گا‘ یہ بھی ممکن ہے کہ آیندہ اس مزاحمت میں مزید شدت آ جائے اور اور اسرائیل کو پہلے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے اور آج غزہ میں جو تباہی ہوئی ہے وہ آیندہ اسرائیل کا مقدر بن جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں