ایک اور ڈنکی…
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر اس سانحے پر یاد آیا کہ لگ بھگ ایک ماہ قبل یونانی ساحل کے قریب کشتی حادثے میں کئی پاکستانیوں کی جانیں گئیں،47 لوگ بچا لیے گئے۔ محاورتاً کہیں تو ابھی اس سانحے کی خبروں کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایک اور کشتی حادثے کی دلخراش خبر تین روز قبل میڈیا کی زینت بنی۔
مغربی افریقہ کے ملک موریطانیہ سے اسپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی کو مراکش کے نزدیک حادثہ پیش آیا۔ اس کشتی میں 86 افراد سوار تھے جن میں 66 پاکستانی تھے۔ اس حادثے میں ڈوبنے والے 50 افراد میں سے 44 کا تعلق پاکستان سے تھا۔
انسانی اسمگلروں نے آٹھ روز تک کشتی سمندر ہی میں کھڑی رکھی اور مزید پیسوں کا مطالبہ کیا۔ واقعے میں بچ جانے والے ایک پاکستانی کا فون پر اپنے اہل خانہ سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ جب کشتی کھڑی تھی تو شدید سردی کے باعث کچھ لوگ بیمار ہو گئے تھے۔
کشتی میں راشن بھی کم تھا، ایسے میں انسانی اسمگلروں نے بیمار افراد کو زبردستی سمندر میں پھینک دیا اور کچھ لوگوں کو تشدد کر کے قتل کر دیا۔ایک عالمی تنظیم واکنگ بارڈرز کے مطابق سال 2024 کے دوران مختلف ممالک سے 10,457 تارکین وطن اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے جو ایک ریکارڈ تعداد ہے۔اقوام متحدہ کے ایک اور ادارے کے مطابق سال 2024 کے دوران 22 ہزار سے زائد افراد یورپ پہنچنے کی کوششوں میں سمندر کا لقمہ اجل بنے۔
تازہ ترین حادثے کی تفصیلات حسب معمول جانی پہچانی ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ گزشتہ سال 2024 میں بھی ایسے کئی حادثات ہوئے جن کی تفصیلات بھی ایسی ہی تھیں۔ تاہم یورپ پہنچنے کے خواہش مندوں میں کوئی کمی آئی نہ انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کا کوئی بال بیکا ہوا۔
ہر حادثے کے بعد حکومتی اقدامات بھی خاصے جانے پہچانے تھے جن میں صدر اور وزیراعظم کا دلی اظہار ہمدردی اور مجرموں کو کٹہرے میں لانے کا عزم صمیم مستقل متن تھا۔ انتظامی اقدامات کا ڈھنڈورا بھی جانا پہچانا سا کہ ایف ائی اے نے فلاں فلاں نیٹ ورک توڑ دیا، اتنے گرفتار ،اتنے مقدمے درج وغیرہ وغیرہ۔ سب کچھ بہت جانا پہچانا سا ہے۔
ہاں ایک پہلو البتہ اس بار قدرے مختلف تھا کہ یورپ جانے کے لیے مغربی افریقہ کے ملک موریطانیہ سے کشتی کا سفر شروع ہوا ،ورنہ عمومی طور پر معروف راستہ بلوچستان، ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ پہنچنے کا ہے۔ مشکل اور اکثر موت سے اٹے اس سفر کو یار لوگ ڈنکی لگانا کہتے ہیں۔
بلوچستان ،ایران اور ترکی کے راستے پیدل یا کنٹینروں میں بند ہو کر یورپ پہنچنے کے سفر کی تلخ حقیقت سے وہی لوگ واقف ہیں جو آدھے راستے سے واپس آ جاتے ہیں یا بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہوں اور یونان پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا وہ ماں باپ جن کے جگر گوشے سنگلاخ اور بے رحم راستوں میں بے موت مارے جاتے ہیں۔
پاکستان، ایران اور ترکی کے بارڈرز پر ایجنٹوں کے کارندے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ، آگے بھیجتے، بیچتے اور بھگاتے رہتے ہیں۔موت کا خوف، بھوک پیاس اور سختی ان کے ہم قدم رہتی ہے۔ ایران میں ایرانی فورسز کی نظر میں آنے سے بیشتر لوگ اس سفر میں مارے جاتے ہیں یا واپس بھیج دیے جاتے ہیں۔
خوش قسمتی سے جو لوگ بچ بچا کر ترکی پہنچ جاتے ہیں وہ بند کنٹینرز میں یا دشوار گزار راستوں کے ذریعے اگلے بارڈر پر پہنچائے جاتے ہیں۔ بچے ہوئے لوگوں کو ترکی سے سمندر میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آگے جانا ہوتا ہے۔ چھوٹی کشتیوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ سوار کرائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر کشتیاں ڈوب جاتی ہیں۔
اس روٹ پر سمندر کے پانی کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہوتا ہے۔ خون جما دینے والے پانی میں اکثر کئی کلومیٹر کا فاصلہ تیر کر بھی پار کرنا پڑتا ہے۔ بارڈر فورسز کی نظر میں آئے تو گولیوں کے نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔ اگر پانی اور گولی دونوں سے بچ گئے اور یورپ کے کسی سرحدی قصبے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو آگے پھر بارڈر فورس اور پولیس سے چھپن چھپائی اور "منزل" تک پہنچنے کا" ایک اور دریا" عبور کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
زندگی باقی رہے تو پہنچ جاتے ہیں ورنہ رزق خاک ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے ڈنکی لگانے کا خوفناک عمل۔ اس سارے سفر میں موت کا چانس 99 فیصد اور زندگی کا ایک فیصد ہے۔ یوٹیوب پر سیکڑوں وڈیوز ڈنکی کے اس جان گسل عمل کی موجود ہیں۔ ڈنکی سفر پر نکلے سیکڑوں نوجوانوں نے اپنے تجربات اپ لوڈ کر رکھے ہیں ، کچھ نے فخر کے ساتھ، کچھ نے دوسروں کو رہنمائی مہیا کرنے کے لیے اور کچھ نے باقیوں کو خبردار کرنے کے لیے یہ وڈیوز اپلوڈ کر رکھی ہیں۔
ڈنکی کے اس پرخطر سفر کے بارے میں جانکاری ہونے کے باوجود ہر سال کئی ہزار نوجوان اس راستے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور چند سو ہی یورپ کی سرزمین کو پر قدم رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
لوگ جانتے بوجھتے اس خوفناک سفر پر کیوں روانہ ہوتے ہیں؟ بہت سی توجیہات ہیں۔ بے روزگاری، تعلیم اور ہنر کا فقدان، معاشی مواقع کی کمیابی، دوست احباب میں سے کامیابی سے یورپ جانے والی کی دلپزیر کہانیاں، لالچ، شارٹ کٹ کی تلاش وغیرہ۔ ماں باپ کبھی مجبور ہو کر اور کبھی دیدہ و دانستہ اس خونیں سفر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ایجنٹوں کی فیسیں اور بلیک میلنگ اور دوران سفر پیسے کی فراہمی میں گاہے زمینیں بک جاتی ہیں، گاہے زیور یا پھر قرض کا پھندا گلے ڈالنا پر جاتا ہے۔ ایسے بھی واقعات ہیں کہ ایک بیٹا موت کے سپرد ہونے کے باوجود ایجنٹ سے رقم کی ایڈجسٹمنٹ کے چکر میں دوسرے بیٹے کو بھجنے پر معاملہ طے پاجاتا ہے!
دنیا میں انسانی اسمگلروں کا دھندا وقت کے ساتھ پھلا پھولا ہے۔ اپنے اپنے ملکوں میں مکافات اور مصائب کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں جن سے انسانی اسمگلرز دھندا کرتے ہیں۔ تفصیلات خوفناک اور انسانی بے حسی سے بھرپور ہیں لیکن ہر سال لاکھوں انسان ایجنٹوں کے جال میں دیدہ دانستہ، انجانے میں یا مجبوراً پھنس جاتے ہیں۔ دنیا میں خوشحال ممالک کی اپنی اپنی ترجیحات اور خوف ہیں جب کہ اس جال میں پھنسانے اورپھنسانے والوں کے اپنے جواز۔ یہ سب کچھ اس تسلسل سے جاری ہے کہ اب حادثوں سے بڑا سانحہ رونما ہو چکا ہے…
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر