ہندوستان اور پاکستان تاریخ کے تناظر میں

پاکستان کی تاریخ ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے، اگر ہم کچھ اپنی کوتاہیوں سے سیکھنا چاہیں

Jvqazi@gmail.com

کچھ دن قبل ہندوستانی فوج کے سربراہ نے یہ بیان دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ایسابیان کسی اہم بھارتی عہدیدار نے بہت عرصے بعد جاری کیا ہے لیکن امریکا میں نئی انتظامیہ آرہی ہے؟ اس موقع پرایسا بیان جاری کرنے کا مطلب ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری رکھے گا۔

میرا عوامی لیگ بنگلہ دیش سے گہرا تعلق ہے مگر انتہائی ادب کے ساتھ میں یہ کہتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں پچھلے ادوار میں عوامی لیگ نے جس طرح سے 1971 کے بیانیے کو ابھارا تھا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہتر نہیں ہو پا رہے تھے۔

اس بات کا ذکر میں ہمیشہ وہاں کے عوامی لیگی کے دوستوں سے کرتا رہا، مگر میری کہی بات نگار خانے میں طوطی کی آواز جیسی تھی اور آج ملاحظہ کیجیے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور یہ بہتری ہندوستان کو ناگوارگزر رہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے، اگر ہم کچھ اپنی کوتاہیوں سے سیکھنا چاہیں۔ نہرو کے زمانے میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات اس حد تک کشیدہ نہ تھے،کل ہی کی تو بات ہے کہ ہم ایک ہی ملک تھے۔

انتہائی احترام کے ساتھ میں یہ عرض کروں کہ کانگریس میں اکثریت ضرور ہندو ممبران کی تھی مگر اس پارٹی میں مولانا آزاد جیسے مسلمان لیڈر بھی تھے۔ جناح 1914 سے لے کر 1920 تک کانگریس کے اتنے ہی بڑے لیڈر تھے جتنے گاندھی۔

ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے پھر گیارہ اگست 1947کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ تھیوکریسی کو خیر باد کہہ چکے تھے۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ یہ نفرتیں جدوجہد کے وقت نہیں بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کے دوران خون خرابے سے بڑھیں۔

پاکستان خصوصاً مغربی پاکستان میں مسلم لیگی قیادت کی جڑیں نہیں تھیں تو وہ یہاں کس طرح سے الیکشن کروائیں اور یہاں آئیں کیسے؟ یوں اندرونی طور پر اقتدار کی جنگ شروع ہوئی۔ لیاقت علی خان کا قتل ہوا، پہلے سول بیوروکریسی نے قبضہ جمایا، ملک نہیں چلاسکے اور پھر سات سال بعد ملٹری بیورو و کریسی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گئے۔ یہ تمام حالات سرد جنگ کے پسِ منظر میں تھے۔ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کے ساتھ اتحاد کیا، یہ سب کچھ انٹرنیشنل کیپٹل ازم کے مفادات کے لیے تھا، جس کے عوض یہاں کی حکمران اشرافیہ نے آمریتوں کی حمایت اور جمہوریت کا گلا کھونٹنے کا لائسنس مانگا۔

یہاں جو بھی جمہوریت کی بات کرتا ، اس پر غداری کا ٹھپہ لگا دیا جاتا۔ ہم نے فاطمہ جناح کو بھی اس الزام سے معاف نہ کیا۔ بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کو یہاں روند دیا گیا۔ ون یونٹ بنایا گیا، زبان، ثقافت اور تہذیبوں کو یہاں کچلا گیا۔

غزنوی ، غوری، خلجی، ابدالی، ترخانوں، ارغونوں اور عربوں کو ہمارا ہیرو بنایا گیا۔ غرض جو ہم نے کرنا تھا وہ تو ہم نے کیا ہی مگر ہمارے خطے کی ساری تاریخ کو ہندوستان کے حوالے کردیا گیا، یہاں شفاف انتخابات تو کرائے گئے مگر اس کے نتائج کو نہیں مانا گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دو لخت ہوا، ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، پھر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ ملک کی باگ ڈور جنرل ضیاء کے حوالے کردی گئی۔ سوویت یونین افغانستان پر قابض ہوگیا۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور افغانستان کے ملاؤں کے وارے نیارے ہوگئے جب کہ نام نہاد لبرل افغان اشرافیہ نے امریکا، مغربی یورپ ، عرب ممالک سے بطور خیرات اور امداد ملنے والے اربوں کھربوں ڈالر ہڑپ کیے۔

بہرحال پاکستان میں بابوؤں نے 1947 کے بعد قراردادِ مقاصد پاس کر کے قائد اعظم کے نظریات سے انحراف کیا، ملک کو مذہبی ریاست بنانے کی بات کی گئی۔ اس بات کو جنرل ایوب نے ضرور نظر انداز کیا مگر تھے وہ آمر۔ اس لیے وہ مذہبی رواداری کی بنیادیں مضبوط نہ کر پائے۔

جنرل ضیاء نے اس ملک کو بالکل اپنی طرز پر چلایا۔ افغانستان، افغان مہاجرین اور پاکستان کے درمیان سرحدیں نہ رہیں، اسمگلنگ، منشیات کا کاروبار اور غیر قانونی اسلحے کا کاروبار پروان چڑھا۔ جنرل ایوب کے زمانوں میں پاکستان کا دارالخلافہ منتقل کیا گیا لیکن سیاست کا اصل مرکز کراچی ہی رہا۔ معاشی اعتبار سے بھی کراچی پاکستان کا محور تھا پھر وقت کے ساتھ اس کی حیثیت میں بھی کمی آئی۔

ایسا بھی ہوا کہ جنھوں نے پاکستان بنایا، آزاد کروایا وہ خود اپنی شناخت ڈھونڈ رہے تھے، جن کو ان ز مانوں کی اسٹبلشمنٹ نے جمہوریت کے خلاف استعمال کیا، جو ماضی میں فاطمہ جناح کے ساتھ تھے وہ آج الگ تھے۔ آج ہم 2025 میں کھڑے ہیں۔

آج ہم نے معجزانہ طور پر پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشوں کو ختم کیا اور ان لوگوں کے مدمقابل ڈٹے رہے جن میں زلمے خلیل زاد جیسے سامراجی ایجنٹ شامل تھے۔ مودی کی سازشی سوچ تھی، طالبان میں ان کی سرمایہ کاری تھی اور جو لوگ اس سرزمین سے طالبان کو ہینڈل کرتے تھے وہ بھی ان سازشوں کا حصہ تھے۔

اس وقت پاکستان کو ایک اور موقع ملا ہے اپنی ساخت اور اپنی تاریخ کو سمجھنے کا۔ اپنی سمت کو درست کرنے کا۔ ریاست کی حیثیت کیا ہے؟ اس کا زاویہ کیا ہونا چاہیے؟ وفاق کے صحیح معنی کیا ہیں اور وفاق کو کیسے چلانا چاہیے؟ یہ بڑے نازک مرحلے ہیں۔ اس ریاست میں پختون نوجوان ایک سوالیہ نشان ہے؟ بلوچستان کا نوجوان سوالیہ نشان ہے؟ سندھ کے اندر چولستان کے حوالے سے کینالوں کا مسئلہ ایک نئی سوچ اور نظریے کو جنم دے رہا ہے۔

ان تمام مسائل میں ایک حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ورلڈ بینک پاکستان کو بیس ارب ڈالر گرانٹ کرنے جا رہا ہے، جو آیندہ دس سالوں میں مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ ان گرانٹس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جو سازشیں بین الاقوامی طور پر پاکستان کے خلاف رچائی گئی تھیں وہ ناکام ہوگئیں۔

مودی صاحب کی پالیسی بھی ناکام رہی کیونکہ اب وہ مزید اپنی قوم کو گمراہ نہیں کرسکتے۔ اب ہمیں بھی اقلیتوں کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ مشترکہ طور پر ہماری بھی تاریخ ہے۔ ہندوستان صرف مودی اور بی جے پی کا نہیں ہے، ہندوستان کانگریس ، بہوجن سماج وادی اور دیگر سیکولر جماعتیں، سیاستدان اور اروندھتی رائے جیسے لوگوں کا بھی ہے۔

پاکستان میں صوبائی اور مذہبی رواداری اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں صوبوں میں تکرار نہیں بلکہ وہ صوبے وفاق سے نالاں ہیں کہ صوبوں کے نوجوانوں کی سنوائی ہو، ان کے مسائل کو سنا جائے۔

احتجاج، ان کا بنیادی حق ہے۔ہم نے جھوٹ پر مبنی اور اپنی تاریخ کو مسخ کر کے جو بیانیہ بنایا اس نے ہمیں اندر سے کمزورکیا۔ اب ضرورت ہے اپنی حقیقی تاریخ کو اجاگر کرنے کی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی اشرافیہ نے جو بیج بوئے تھے، آج ریاست ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔ ان حالات کو ایک رات میں ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ان بیجوں کو جڑوں سے نکالنا ہوگا۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک بھرپور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کو سیاسی انداز میں نمٹا جا سکتا ہے۔

آج پاکستان ، مضبوطی اور رواداری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور اس پاکستان کے ساتھ یقیناً دنیا مطمئن ہوگی۔ پاکستان اس وقت تاریخ کی درست سمت پر ہے، لہٰذا ضرور اس کی منزل آسان ہے۔

Load Next Story