ہم پاکستانی امریکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا پر بہت خوش تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ’’افغان طالبان نے امریکی غلامی سے نجات حاصل کر لی ہے۔‘‘ افغان طالبان نے یہ آزادی ضرور حاصل کی تھی مگر اس کی پاکستان نے کتنی قیمت ادا کی تھی، افسوس اب اس کا کہیں ذکر ہی نہیں ہوتا۔
یاد رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی حکومت کے آخری ایام میں ہی اشرف غنی کی حکومت ڈانواڈول ہونے لگی تھی۔ افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی شروع تھی جب کہ امریکا اور نیٹو افواج کی واپسی کا عمل بھی شروع ہوچکا تھا۔ طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے سے قبل ہی امریکی فوجیوں کی واپسی کی کئی پروازیں کابل سے روانہ ہوتی رہی ہیں، پھر طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بھی یہ پروازیں جاری رہیں مگر طالبان نے انھیں ذرا نہ چھیڑا۔
بلکہ امریکی فوجی اپنے پیچھے دانستہ بڑی تعداد میں جدید اسلحہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ یہ سوال پہلے ایک معمہ بنا ہوا تھا مگر اب اس کا جواب مل گیا ہے۔ طالبان کو ٹرمپ حکومت کے وقت تک کابل پر قبضہ کے لیے گرین سیگلنل نہیں دیا گیا مگر جیسے ہی بائیڈن نے اقتدار سنبھالا طالبان تیزی دکھانے لگے اور مختلف صوبوں کو فتح کرنے کے بعد کابل پر بھی قابض ہوگئے، صرف شمالی افغانستان میں واقع احمد مسعود کا صوبہ باقی تھا جو بعد میں طالبان کے قبضے میں آگیا تھا۔
طالبان نے کابل پر قبضہ تو کر لیا تھا مگر حکومت چلانے کے لیے اخراجات کا پورا کرنا مشکل مرحلہ تھا، ایسے میں چند دن بعد ہی بائیڈن حکومت کی جانب سے انھیں رقم حاصل ہونا شروع ہوگئی جس سے طالبان مالی طور پرکافی بے فکر ہوگئے۔
اب سوال یہ ہے کہ بائیڈن نے آخر طالبان کے ساتھ یہ مہربانی کیوں کی؟ یہ بات شاید راز ہی رہتی مگر چند دن قبل امریکی کانگریس کے ایک رکن نے یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ طالبان کو اب بھی امریکی امداد فراہم کی جا رہی ہے، یہ امریکی ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی رقم ہے جو ہمارے دشمن کو کیوں فراہم کی جا رہی ہے۔ بائیڈن کا یہ راز تو فاش ہوگیا مگر ابھی تو کئی اور راز سامنے آسکتے ہیں۔ لگتا ہے انھوں نے طالبان کو ایسے ہی یہ امداد فراہم نہیں کی ہوگی ضرور اپنے دل کے ٹکڑے اسرائیل اور جگری دوست بھارت کو خوش کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہوگا تاکہ پاکستان بدستور غیر مستحکم رہے اور ٹی ٹی پی بدستور پاکستان میں اپنی دہشت گردی جاری رکھے۔
طالبان نے امریکی امداد قبول کرکے خود کو بے اصول ثابت کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ٹی ٹی پی برابر پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں مصروف ہے اور پاکستان کے لاکھ احتجاج کے باوجود بھی وہ جاری و ساری ہے اور شاید یہ آگے بھی جاری رہے کیونکہ اس میں طالبان کی مرضی شامل لگتی ہے۔
اب بائیڈن کے بعد امریکا میں ٹرمپ اقتدار سنبھالنے والے ہیں، وہ طالبان کو دی جانے والی امداد کا ضرور نوٹس لیں گے اور ہو سکتا ہے یہ طالبان کو بائیڈن کی جانب سے دی جانے والی امداد (رشوت) ختم ہو جائے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے، پاکستان نے طالبان کی مدد انھیں آزادی دلانے کے لیے کی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ شروع دن سے ہی طالبان میں شامل پاکستان مخالف گروپ پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ پاکستان کے احسان کو طالبان نے ہوا میں اڑا دیا۔ پاکستانی حکومت کیوں دھوکے میں رہی، اس پر غور کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے ذرایع اتنے کمزور ہیں کہ ہم اپنے خلاف سازشوں کا پتا بھی نہیں لگا پاتے اور اپنے دشمن کو بھی دوست سمجھتے ہوئے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ طالبان کے ہاتھوں دھوکا اٹھا کر پاکستان کو بھیانک نقصان اٹھانا پڑا۔
بے حساب جانی و مالی نقصان ہوا۔ طالبان کی ہمدردی کرنے سے پوری دنیا میں دہشت گرد ہونے کا طعنہ دیا جانے لگا تھا ، یہ داغ ابھی بھی نہیں دھلا ہے۔ طالبان کی وجہ سے ہم نے جو ذلت اور نقصان اٹھایا کاش کہ اس سے ہمیں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی سے نجات مل جاتی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ اب ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پہلے سے زیادہ شمال مغربی سرحد پر حملے کرکے ہماری سیکیورٹی فورسز کو خون میں نہلا رہے ہیں۔
پاکستان نے انھیں اپنے حوالے کرنے یا ان کا صفایا کرنے کے لیے طالبان حکومت سے بار بار درخواست کی ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ نکلنے کے بجائے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ دنوں طالبان حکومت کی بے حسی سے تنگ آ کر افغان سرحد سے ملحق ٹی ٹی پی کی کمین گاہوں پر فضائی کارروائی کی ہے جس سے ٹی ٹی پی کو بہت نقصان پہنچا ہے مگر پاکستانی کارروائی افغان طالبان کو بہت ناگوار گزری ہے۔ انھوں نے باقاعدہ اس کا پاکستان سے بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے۔
اب طالبان نے پاکستان کے خلاف ایک اور سخت قدم اٹھایا ہے۔ اس نے بھارتی حکومت سے رابطہ کر کے اس کے سیکریٹری خارجہ سے دبئی میں ملاقات کی ہے۔ یہ ملاقات پاکستان کے لیے ایک کھلی خطرے کی گھنٹی ہے۔ طالبان نے بھارت سے تعلق قائم کرکے پاکستان سے سراسر احسان فراموشی کی ہے لیکن وہ شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ پاکستان کی اب بھی انھیں ضرورت ہے اس لیے کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو انھیں عالمی برادری سے تسلیم کرانے کی مہم چلا رہا ہے گوکہ یہ مہم جوئی پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔
کیونکہ طالبان دقیانوسی اصولوں پر چل رہے ہیں گوکہ وہ اسلامی قوانین پر چلنے کی بات کرتے ہیں مگر خواتین کی تعلیم اسلام کا بنیادی نکتہ ہے وہ اس سے انکاری ہیں۔ خواتین کو تعلیم سے روکنے کی وجہ سے مغربی ممالک انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان سے تعلقات قائم کرنے سے گریزاں ہیں۔ لگتا ہے بائیڈن کی امداد کو حاصل کرکے طالبان ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہے ہیں مگر پھر بھی پاکستان سے بگاڑ کر وہ اپنے لیے اچھا نہیں کر رہے ہیں۔