مختار رانا تصویر کا ذاتی رخ
رانا کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ بڑی صاف شفاف دلنشیں گفتگو کرتے تھے، لہجہ شیریں اور پر تاثیر ہوتا تھا۔
برادر نصرت جاوید اور مقتدا منصور کی یادداشتوں کو پڑھنے کے بعد دل میں یہ خواہش جاگ اٹھی کہ کچھ یادیں ہم بھی تازہ کر لیں، کیونکہ مختار رانا پر لیاری والوں کا بھی کچھ حق ہے، وہ تو ہماری نظروں کے سامنے رہتے تھے ۔ان کے اور ہمارے درمیاں سیاست کی کوئی میلی دیوار حائل نہیں تھی ۔ مختار رانا پارٹی کے اندر ابھرنے والے پہلے بے باک اینٹی بھٹو نظریاتی رہنما تھے ۔
یہ لیاری احمد شاہ بخاری روڈ پر واقع اسکول میں شادی کی تقریب کا واقعہ ہے1970 کا دورانیہ ہے، الیکشن ہوچکے تھے۔ انھوں نے لائل پور (فیصل آباد) کی قومی اسمبلی کی نشست پر بھاری اکثریت سے فتح پائی تھی۔ اس وقت فضا کچھ اور تھی، لیاری سمیت ملک بھر کی سیاسی زندگی میں تھرتھلی مچی ہوئی تھی۔ کئی سیاسی لات ومنات اوندھے منہ پڑے تھے، چھوٹے موٹے سیاسی سومنات سے آہ و بکا کی آوازیں آرہی تھیں۔
لیاری کے معروف خاندان کا دیرینہ سیاسی قلعہ اجڑچکا تھا ، جیالوں کی شوریدہ سری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، یہ وہی بے نام سے سیاہ فام خاندان تھے جنھوں نے سیاسی شعور کا ثبوت دیا اور پی پی کو اپنے کندھے پر اور پھر راج سنگھاسن پر بٹھا دیا خود خاک بسر ہی رہے ۔ بہر حال ان دنوں انتہائی منظم انتظامی و سیاسی طریقے برپا کی گئی گینگ وار کی ظلمت شب اور بدنصیبیوں کا دور دورہ نہیں تھا، سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ جیسی نوید افتادگان خاک کو مل رہی تھی۔ محنت کشوں کی اس پر امن اور رواداری و انسان دوستی سے سرشار بستی میں اس رات بلوچی کے مشہور گلوکار محمد جاڑک نغمہ سرا تھے کہ ایک سیاہ فام نوجوان نے آکر میرے کان میں سرگوشی کی'' سرآپ کا مہمان آیا ہے۔''
میں خاموشی سے اٹھا ، پنڈال سے باہر آکر دیکھا تو سامنے پیپلز پارٹی کے شعلہ بیان رکن قومی اسمبلی مختار رانا صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے ۔ ان کی پدرانہ ، مشفقانہ اور دلنواز مسکراہٹ ان کی بے لوث شخصیت کا ایک خاص وصف تھی۔ میرے والد اسرار عارفی کہا کرتے تھے کہ بیٹے تین آدمی دروازے پرجب بھی دستک دیں تو ان کی ہمیشہ تعظیم کرو۔ یہ تین شخصیتیں تھیں احمد دستگیر، میر غلام قادر ہمدانی اور مختار رانا ۔ احمد دستگیر اورہمدانی صاحب خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اﷲ مشرقی کے دست راستوں میں سے تھے، ان کے گروپ کے سربراہ عبداللطیف بٹ تھے جو لیاری میں مختار رانا کے ہمراہ آتے تھے، ابو اور میں انھیں صوفی جی کہا کرتے، بڑی تہلکہ خیز اور دبنگ چیز تھے ، مختار رانا کی انقلابی تربیت ان ہی کی مرہون منت تھی۔ سینئر صحافی طارق بٹ ان کے فرزند ہیں۔
احمد دستگیر کا مشرقی پاکستان کے ہدایت کار ، اداکار اور موسیقارخان عطاالرحمان اور دیگر بنگالی نوجوانوں سے قیام پاکستان سے قبل کیمپ میں سوشلزم پر ایک فکری مناظرہ ہوا پھر عطا بٹ صاحب کے مرید بن گئے۔ خان عطاالرحمان نے جواں گردی کے کئی قیمتی سال لیاری اور کراچی میں گزارے، یہیں سے وہ لندن نکل گئے اور وہاں سے فلم ٹیکنالوجی کا ڈپلومہ لے کر مشرقی پاکستان پہنچے تو'' سراج الدولہ'' اور ''سوئے ندیا جاگے پانی'' جیسی آرٹ فلمیں بنا ڈالیں ۔ مختار رانا 60 ، 90 اور 2000 کے دوران بار بار لیاری آئے تو ہمارے ہی گھر پر ان کا قیام رہا۔1970 کے انتخابات کے بعد جب پیپلز پارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کی زلزلہ خیز کانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں شرکت کے لیے وہ اسی رات لیاری پہنچے تھے جس کا میں اوپر ذکر کرچکا ہوں۔
والد سے گپ شپ کرتے ہوئے رات گزری اور صبح ناشتہ جلدی سے کیا اور کہنے لگے ، کانفرنس میں جانا ہے اور آج بھٹو کے روبرو ایک انقلابی اور تند وتیز تقریر کرنی ہے۔دل کی بھڑاس نکالنی ہے، وڈیروں کی نیندیں حرام ہونگی تو ملک میں تبدیلی آئیگی ۔ کہنے لگے میرے ہمراہ دو اور رکن اسمبلی بھی آئے ہیں ،ایک مردان سے عبدالخالق اور دوسرے قصور سے راؤ خورشید علی خان ۔ خالق خان کو پروفیسر کرار حسین کے گھر چھوڑ آیا ہوں ، اور خورشید علی کو پائنیر انشورنس کمپنی کے دانشور بابا عابد زبیری کو سونپ چکا ہوں ، میرا گھر میرا آستانہ لیاری ہے، چار کھدر کے سوٹ اٹیچی کیس میں ہیں باقی سارے سوٹ جلا کر آیا ہوں، ''عارفی! (ابو کو اسی نام سے پکارتے تھے) کشتیاں جلانی ہیں، تیاری پکڑو،''۔
زمین پر سوتے تھے، جھوم جھوم کے یہ مصرع پڑھا کرتے ''ہم خاک نشینوں کے بستر پر زمانہ ہے''، ایک بار مخبروں نے 70 کلفٹن کو یہ بھی خبر دے دی کہ مختار رانا تو پی پی کے رکن اسمبلی سید امداد حسین کے گھر میں چھپے ہوئے ہیں ۔ وہ کاوش رضوی کو اکثر یاد کرتے ہوئے بلاتے ۔شہید ملت لیاقت علی خان کا سیاسی قتل مختار رانا کا ٹریڈ مارک تھا، جب بھی کراچی آتے ، ان کے قاتلوں کی گرفتاری اور قتل کی تحقیقات کا مطالبہ ضرور کرتے۔
1974 میں بھٹو سے اختلاف شدت اختیار کرچکے تھے اسٹبلشمنٹ نے ان پر بغاوت کا مقدمہ درج کررکھا تھا اور فوجی عدالت نے انھیں کوڑوں کی سزا بھی سنائی مگر عدالت میں ان کا مدلل انداز گفتگو کرنل کو متاثر کرگیا اور پھر انھیں عارضہ قلب کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا ۔ کچھ عرصہ بعد مستقل لندن چلے گئے۔ یہاں وہ سینئر وکیل اورہاری دوست اسلم رانا کو چھوڑ گئے ہیں جو ان کے قائم کردہ ٹرسٹ کے تحت ملک بھر کے اور خاص طور پر اندرون سندھ کے غریب ومفلوک الحال ہاریوں کے مقدمات کی مفت پیروی کرتے ، انھیں وڈیروں کی نجی جیلوں سے چھڑانے کو مشن بنائے ہوئے ہیں۔
مختار رانا سے بھٹو کی ناراضی کے باعث ان کی گرفتاری یقینی تھی چنانچہ اس واقعہ سے قبل وہ روزنامہ حریت پہنچے ، ابو نے انھیں خالد علیگ سے ملایا، مقدمہ کا ذکر چلا اور وہیں بیٹھے بیٹھے خالد بھائی نے مختار رانا کے لیے خطاط سلیم اختر سے چند شعر کتابت کروائے اور کتابچہ چھاپ دیا ۔اس میں ایک قطعہ تھا
ساتھیو اب بھی وہی رسم چلی آتی ہے
کوئی صیاد ہوا اور کوئی صید ہوا
تم کہ ہر حال میں عیسیٰ کے حواری نکلے
میں کہ ہر دور میں مصلوب ہوا قید ہوا
مندرجہ ذیل یادگار اشعار بھی تاریخ کا حصہ بن گئے،
دشت پیما ہے نفس لاکھ بگولوں کی طرح
دل میں یادیں تیری محفوظ ہیں پھولوں کی طرح
گرچہ مامور من اﷲ نہیں تھے ہم لوگ
ظلم ہنس ہنس کے سہے ہم نے رسولوں کی طرح
حسن ہی حسن ہے دنیا میں جدھر بھی دیکھو
عشق پہ جب سے رکھی ہم نے اصولوں کی طرح
مختار رانا بلا کے رجائیت پسند تھے ، ڈاؤن ٹو ارتھ ۔ فقیر منش انسان تھے۔ دراز قد ، وجہیہ و شکیل ۔ مزدوروں کے درمیان بیٹھ کر ان کے دکھ درد ٹٹولتے ۔ ان کی امیدیں بندھاتے ، انقلاب کی باتیں بھی ہنستے ہوئے اور شگفتہ انداز میں کرتے ، لیاری کے سیاہ فام بچوں اور نوجوانوں سے ان کو بہت محبت تھی ۔ افسوس سیفی لین بغدادی کے اسی گھر کو جس میں رانا جی نے اہل لیاری سے تجدید عہد کیا تھا،گینگ وار کے کارندوں نے اجاڑ کے رکھ دیا۔اب وہاں رانا کی روح آکر شاید بین کرتی ہوگی۔
رانا کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ بڑی صاف شفاف دلنشیں گفتگو کرتے تھے، لہجہ شیریں اور پر تاثیر ہوتا تھا۔ لیاری سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنے سوتیلے بیٹے جوناتھن ہڈسن کو کراچی بھیجا تو اسے تاکید کی کہ you have to stay at Lyari residence ۔ اور وہ حسین و جمیل گورا جو لیور پول کی سیکنڈ ڈویزن کا فٹبالر بھی تھا چار دن تک لوڈ شیڈنگ ، لیاری کے مچھروں اور آلودہ پانی سے فیض اٹھانے کے بعد لاہور چلاگیا۔ اس نے منرل واٹر نہیں پیا ۔رانا صاحب کے ہاں اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ کے خلاف برہمی اور غصے کا اظہار تھیٹریکل نہیں تھا۔ راست اقدام پر یقین رکھتے تھے اور اس کا مظاہرہ وہ لائل پور میں کارخانے پر قبضہ کرنے کی صورت میں کر بھی چکے تھے۔
خالقدینا ہال میں ان کی والہانہ جذبات و للکار سے لبریز تقریر ایم اے جناح روڈ کے اطراف میں گونجتی رہی ۔ اور اس تکرار کے ساتھ کہ یہاں مولانا محمد علی جوہر نے برطانوی راج کو للکارا تھا ۔ کبھی فضول دلائل نہیں دیتے اور نہ سستی سیاسی رومانیت عزیز تھی ۔ پھر ایک دن الماری پر نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگے نادربیٹے ! بڑی کتابیں جمع کی ہیں ، گرامر کی کتابیں کچھ زیادہ ہیں ، ناں ناں ، بیٹے گرامر جو پڑھ لی سو پڑھ لی، اب صرف مطالعہ پر توجہ دو ۔اچھی اور ادبی کتابیں بدستور پڑھتے رہو ۔ ان ہی دنوں میں لیاری کی سماجی صورتحال پر ان کا انگریزی زبان میں ایک مضمون اخبار میں شایع ہوا، عنوان تھا ، لیاری: کالے ہیروں کی کان
( A Pit of Black diamonds:Lyari)۔ 1996ء میں ملک معراج خالد کو بطور نگران وزیراعظم دعا دینے آئے تھے ۔ آخری بار آئے تو شوگر کے مریض تھے، نقاہت کے باعث اب وہ گھن گرج باقی نہیں رہی تھی ۔ مگر لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ اور دردمندی کا اظہار اس وقت بھی ان کی شخصیت کا حصہ تھا ۔اب تو قحط الرجال ہے ۔رانا جی! کہاں کا انقلاب اور کیسی تبدیلی۔