نجکاری کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی
سرمایہ دار اور صنعتکار طبقہ نجکاری کے ذریعے ہی دونوں ہاتھوں سے منافع کماتا ہے۔
پاکستان میں نجکاری کے عمل کو عموماً حکمران طبقات کے مفادات اور ان کے طبقاتی بھائیوںکے مفادات کے تناظر ہی میں دیکھا جاتا ہے جب کہ اس کا تعلق ان دو نظریات سے ہے جو طبقاتی استحصال کے حامی اور مخالف ہیں۔
پسماندہ ملکوں میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے، نجکاری کے لیے عموماً یہ بہانہ یا جواز پیش کیا جاتا ہے کہ قومی اداروں میں کام نہیں ہوتا جس کی وجہ قومی ادارے نقصان میں آ جاتے ہیں جس کا واحد علاج قومی اداروں کی نجکاری ہے۔ نجکاری کا کلچر سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ سرمایہ دار اور صنعتکار طبقہ نجکاری کے ذریعے ہی دونوں ہاتھوں سے منافع کماتا ہے۔ نجکاری کو سرمایہ داروں کے لیے مفادات کے حصول کا لائسنس کہا جا سکتا ہے۔ صنعتکار طبقہ نجکاری کو ضروری سمجھتا ہے لیکن اس فلسفے میں یہ اضافت ٹھونسی جاتی ہے کہ ''نجکاری قومی ترقی کے لیے ضروری ہے'' حالانکہ نجکاری کا اصل مقصد سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کی بالادستی ہوتا ہے اور اس کھیل میں سارا الزام محنت کش طبقات پر ڈال دیا جاتا ہے کہ ان کی کام چوری کی وجہ سے قومی ادارے نقصان میں آ جاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان اداروں کو چلانے والی بیوروکریسی، جن کا تعلق حکمران خاندانوں سے ہوتا ہے، کی کرپشن اور نااہلی سے یہ ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں نجکاری کا عمل جاری ہے۔ کئی قومی اداروں کی نجکاری کر دی گئی ہے اور کئی اہم ترین اداروں کی نجکاری کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ دنیا کے پسماندہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی قومی اہمیت کے حامل ادارے قومی ملکیت کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی قومی اہمیت کے حامل ادارے پبلک سیکٹر میں ہیں جن میں ریلوے اور دیگر ادارے شامل ہیں اور کامیابی سے چل رہے ہیں اور منافع بھی دے رہے ہیں۔
پاکستان میں نجکاری کے خلاف مزدور طبقات کی تحریکیں ابھی تک طاقتور اس لیے نہیں ہو سکیں کہ ان طبقات کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر کے ان کی طاقت کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا نام نہاد دانشور ادیب اور شاعر بھی سرمایہ دارانہ نظام کی بددیانتی کے انداز سے حمایت کر رہا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا مخالف نظام چونکہ شکست کھا چکا ہے اس لیے اب دنیا کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
اور یہی دانشور اور لکھاری اپنی تحریروں میں استحصالی طبقات کے مظالم کا رونا روتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور غربت مہنگائی بے روزگاری کرپشن کے خلاف واویلا کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے تبرکات ہیں۔ اس دوغلے پن کی وجہ وہ مراعات وہ آسودہ زندگی ہے جو حکمرانوں کی بالواسطہ اور بلاواسطہ حمایت ہے انھیں حاصل ہے۔سرکاری کنٹرول میں چلنے والے ادارے قومی اہمیت کے حامل ہیں اگر یہ ادارے نقصان میں چل رہے ہیں تو اس کا سبب ان اداروں میں کام کرنے والوں کی کام چوری نہیں بلکہ ان اداروں کو چلانے والوں کی نا اہلی ہے۔
ایوب خان، یحییٰ خان اور بھٹو کے دور میں ہمیں بھی مزدور تحریک کی قیادت میں شامل رہنے کا موقع ملا۔ اس دور کی مزدور قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ نظریاتی اور مخلص نوجوانوں پر مشتمل تھی کراچی میں مزدوروں کے دونوں بڑے علاقے سائٹ اور لانڈھی کورنگی متحدہ مزدور فیڈریشن اور لیبر آرگنائزنگ کمیٹی کی سرپرستی اور قیادت کے تحت مزدور تحریک میں شامل تھے اور کراچی کے لاکھوں مزدور ان دو تنظیموں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، کسی تیسری تنظیم کا مزدور نام سننے کے لیے تیار نہ تھے۔
مزدوروں کے اس اتحاد کی وجہ قیادت پر ان کا اعتماد تھا یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی مزدور تحریکوں میں 1967ء سے 1973ء تک کی مزدور تحریک ایک نمایاں اور تاریخی مقام رکھتی ہے۔ اگر آج کے محنت کشوں کو نجکاری کی لعنت اور طبقاتی استحصال سے نجات دلانا ہو تو مزدوروں میں 1967ء سے 1973ء جیسا اتحاد قائم کرنا ہو گا اس کے لیے مزدور قیادت کو ذاتی جماعتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف ایک پوائنٹ ''استحصال'' کے خلاف متحد ہونا پڑے گا خواہ یہ استحصال بے روزگاری کی شکل میں ہو یا نجکاری کی۔
پاکستان میں نجکاری کے نام پر سرمایہ داری کے فروغ کا سلسلہ جاری ہے۔ نجکاری کے وکیل نجکاری میں مزدوروں کو حاصل ہونے والے کسی ایک فائدے کی نشاندہی کریں۔ اس کے برخلاف سارا میڈیا نجکاری میں ہونے والی اربوں روپوں کی کرپشن سے بھرا پڑا ہے۔ گزشتہ دنوں حیدر آباد میں 7 مزدور فیڈریشنوں کے اجلاس میں ایک ایکشن کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جو کرپشن کے خلاف اور مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرے گی۔
اس کا دائرہ کراچی تک وسیع کرنے اور پھر قومی سطح پر ایک مزدور اتحاد تک بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے ایجنڈے میں نجکاری سمیت طبقاتی استحصال کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد شامل ہو۔ اس قسم کے وسیع تر اتحاد کے بغیر محنت کشوں پر ہونے والے مظالم کو روکا نہیں جا سکتا، اس سلسلے میں سینئر مزدور رہنماؤں سے اعانت حاصل کی جا سکتی ہے۔