مشرق وسطیٰ، امن کے امکانات روشن

عالمی سطح پر مروجہ ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے جب کہ نیا عالمی توازن قائم ہونا باقی ہے۔


ایڈیٹوریل January 20, 2025

15ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا آغاز ہوگیا ہے، جس سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ یہ جنگ بندی معاہدہ فلسطین میں کئی ماہ سے جاری خونریزی کے خاتمے کی ایک اہم کوشش ہے۔

بلاشبہ بیالیس روزہ امن معاہدے پر اگر اسرائیل عملدرآمد کرتا ہے، تو مشرقِ وسطیٰ میں امن کے حوالے سے بھی نئے امکانات روشن ہوجائیں گے، عوام پر کیا گزرتی ہے، اس کے مناظر غزہ کے علاوہ یوکرین، غزہ ،لبنان اور یمن میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہوں اور کھانے کے لیے دنیا بَھر سے امداد مانگی جا رہی ہو، تو جنگوں کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔

گو اسرائیل نے خطے کے ممالک کے خلاف مسلسل ایک بڑی جنگ چھیڑ کر غزہ پر اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے عالمی ممالک کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی، تاکہ اس عمل کے دوران وہ ’’عظیم اسرائیل‘‘ بنانے کی خواہش بھی کرے گا جو اس کا ہمیشہ سے خواب رہا ہے لیکن وہ اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کرسکا۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام بڑی طاقتوں کی سیاست اور خطے کے ممالک کے مفادات کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے جس کی بدولت خطے کے لاکھوں مکین مصائب کا شکار ہیں، جب تک انسانی زندگی، انسانی حقوق کا احترام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی پاسداری نہیں کی جاتی غیر معمولی تباہی کی طرف دنیا کا سفر جاری رہے گا۔ مسئلے کے ایک ریاستی حل کا سراب امن فراہم کرے گا نہ سلامتی۔ درحقیقت آزاد فلسطینی ریاست مسئلے کا مستقل حل ہے۔

پاکستان نے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ اور بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر تنازعات کے حل اور کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ خطے کے عوام، بشمول فلسطین اور لبنان کے شہری، خوف اور تشدد سے آزاد زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔

 عالمی سطح پر مروجہ ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے جب کہ نیا عالمی توازن قائم ہونا باقی ہے۔ امریکا، تیزی سے عالمی منظر نامے میں عالمی قوت کے طور پر ابھرنے والے چین اور دوبارہ عالمی طاقت بننے کے خواہاں روس سے طاقت کے حصول میں کوشاں ہے۔ امریکا جسے عسکری صلاحیتوں کے اعتبار سے واضح برتری حاصل ہے، کوشش کرے گا کہ چین کو ایک تنازع کا حصہ بنائے تاکہ چین نے جو معاشی اور عسکری استحکام حاصل کیا ہے، وہ اسے گنوا دے۔ ماسکو کو یوکرین میں الجھا دینے کے بعد واشنگٹن دو عالمی تنازعات جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان یا مشرقِ وسطیٰ میں سے ایک میں چین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔

امریکا کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود چین نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کے تنازع سے گریز کیا ہے۔ چین مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں بھی ملوث ہونے سے اجتناب کررہا ہے جب کہ اس کے بجائے چین نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد اور اس سے قبل ایران، سعودی سفارتی مفاہمت میں ثالثی کا کردار ادا کرکے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایران، امریکا اور تمام عرب ممالک نہیں چاہتے کہ خطے میں بڑی پیمانے پر جنگ ہو کیونکہ ایسی جنگ کے خطے اور اس سے باہر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک چین کی شمولیت کی بات ہے، اس کی ہمیشہ سے یہی ترجیح رہی ہے کہ وہ کسی ایسی جنگ کا حصہ نہ بنے جو اس کی قومی ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بن سکتی ہو۔

درحقیقت جنگ کی سب سے بڑی قیمت اقتصادی طور ہی پر ادا کرنی پڑتی ہے، جو عوام ادا کرتے ہیں کہ عوام جان سے بھی جاتے ہیں اور اُن کے گھر بار، روزگار بھی تباہ ہوتے ہیں، صرف ایک سال کی جارحیت نے اسرائیل کو تقریباً 59ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا، جب کہ اس کی کُل سالانہ آمدنی530 ارب ڈالرز ہے۔

یہ اس کی طویل ترین جنگ ہے، ورنہ وہ ہمیشہ اپنی جنگیں دنوں اور ہفتوں میں نمٹاتا رہا ہے۔ اِس سال بَھر کی جنگ سے اِس کی ترقی کی رفتار کم ہوئی۔ خاص طور پر ہیومن ریسورسز پر بہت دباؤ پڑا ہے، جو پہلے ہی بہت کم ہے۔ اسرائیل کی کُل آبادی نوے لاکھ ہے۔ اُسے جنگ میں ریزرو فوجیوں کو بھی بُلانا پڑا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو صنعتوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی، ٹیکنیکل اداروں اور کاروبار سے منسلک ہیں، جن پر اسرائیل کی ترقی کا دارومدار ہے۔ ایسے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک بتائی جاتی ہے، اب اِتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کی جنگ میں شمولیت اور اِتنے لمبے عرصے تک اپنے اصل کام کاج چھوڑنے سے مختلف شعبے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اِن دنوں اکانومی وار، ملٹری سائنس کا ایک اہم ترین سبجیکٹ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کئی بار مُلک، جنگیں جیت کر اور ممالک پر قبضے کر کے بھی ہار جاتے ہیں، کیوں کہ وہ اقتصادی طور پر اُنھیں سنبھال نہیں پاتے۔ اِس ضمن میں برطانیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس کی حُکمرانی میں سورج نہیں ڈوبتا تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ کی فتح کے باوجود، وہ ہار گیا اور اُسے اپنی تمام نوآبادیاں آزاد کرنی پڑیں۔ وجہ یہ ہے کہ اقتصادی طور پر انھیں اپنے قابو میں رکھنا اُس کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔ جیسا کہ یوکرین میں جنگ جاری ہے، جس میں ایک بڑی عالمی طاقت اور ویٹو پاور، روس براہِ راست ملوث ہے۔ دوسری طرف غزہ ، لبنان، شام اور یمن میں جو فوجی تصادم ہو رہے ہیں، اُن میں امریکا اور یورپ، اسرائیل کے ساتھ ہیں۔

یہ بات تو کُھل کر سامنے آ چُکی ہے کہ ایران ہو یا اسرائیل یا پھر اُن کے اتحادی، کوئی بھی بڑی جنگ نہیں چاہتا۔ یہ بات بھی بار بار ذہن میں آتی ہے کہ کیا یہ بڑی طاقتیں بھی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنا کوئی خاص ایجنڈا رکھتی ہیں؟ دوسری جانب ایران اور اسرائیل کی دشمنی کے درمیان جو ایک پردہ سا تھا، وہ بھی اب ہٹ چُکا ہے۔ پہلے ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے اسرائیل سے زور آزمائی کر رہا تھا اور اب دونوں ایک دوسرے پر براہِ راست حملے کررہے ہیں، گو مقامی اور عالمی رہنماؤں کو بھی سخت تشویش لاحق ہے، لیکن وہ صُورتِ حال میں بہتری کے لیے کچھ کر بھی نہیں رہے اور یہ بہت اچنبھے کی بات ہے۔ پہلے سب امریکا کو کوستے تھے، اب سمجھ نہیں آتا کہ روس، چین اور یورپ کیا کر رہے ہیں؟  وہ مغربی ممالک جو فخریہ انداز میں عالمی انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو اس کا درس دیتے ہیں، وہ بھی غزہ کی نسل کشی پر چپ سادھے رہے۔ تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر امریکا اور دیگر یورپی ممالک اسرائیل کی اس قدر مضبوط حمایت کیوں کررہے ہیں؟ یہ اشاریے مل رہے ہیں کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ کھونے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے جو اس نے کئی سالوں میں اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کے ذریعے حاصل کیا ہے۔

علاقائی سطح پر ایران جب کہ عالمی سطح پر روس اور چین امریکا کے اثر و رسوخ کو سخت مقابلہ دے رہے ہیں۔ اسرائیل اب بھرپور کوشش کررہا ہے کہ وہ ایران کو اپنے ساتھ جنگ میں الجھا دے جس کا اصل مقصد ایران کو قابو میں کرنا ہوگا جوکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی تسلط کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم ایران کو شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اپنی حالیہ انٹیلی جنس ناکامیوں کے باوجود وہ عراق سے شام، لبنان تک، علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یمن کے معاملے پر تنازعات کے باوجود ایران سعودی عرب کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات کا خواہاں ہے۔ یہ سب اسرائیل کے لیے اچھی خبر نہیں۔ اسرائیل کی جانب سے پہلے بھی ایران کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جب اس نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر میزائل حملہ کیا۔

اس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی بھی کی تھی لیکن یہ کشیدگی، جنگ میں تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت امریکا تصادم کی صورت میں جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔اسمعٰیل ہنیہ کی شہادت کی حالیہ پیش رفت ایران کو جنگ کے لیے اُکسانے کی دوسری اسرائیلی کوشش ہے اور اسے گمان ہے کہ امریکی حمایت کی بدولت وہ یہ جنگ جیت بھی سکتا ہے۔ اسرائیل کے لیے مایوس کُن یہ تھا کہ امریکا اور ایران دونوں ہی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر جنگ سے اجتناب برتے ہوئے ہیں۔تارکینِ وطن اور اس سے جڑے مسائل خود بخود پیدا نہیں ہوئے، لوگ اِتنے پاگل تو نہیں ہیں کہ بغیر کسی وجہ کہ اپنا ملک چھوڑ کر در در کی ٹھوکریں کھاتے پِھریں۔ غزہ، پھر لبنان اور اب براہِ راست ایران اور اسرائیل میں فوجی تصادم، عالمی طاقتوں کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دونوں بڑی طاقتوں، امریکا اور روس نے فیصلہ کیا تھا کہ اب جنگوں کو خیرباد کہہ دیا جائے اور تمام ممالک کی توجہ اپنے عوام کی خوش حالی پر ہو۔ ’’سرد جنگ‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی، چھوٹے اور کم زور مُلک ایک دوسرے سے لڑتے اور تباہ ہوتے رہے۔اِن میں تنازعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ بڑی طاقتیں ہوں یا یورپ اور دیگر اہم خطوں کے ممالک، اب ان میں سے کوئی بھی جنگوں میں اُلجھنا نہیں چاہتا، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی، جو بار بار فوجی تصادم کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اِس ساری کمٹ منٹ پر پانی پھیر دیتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں