برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی تاریخ ابتداء ہی سے سازشوں سے بھری ہوئی ہے ۔ جب کبھی سراج الدولہ اورٹیپو سلطان کا ذکر ہوتا ہے تو اس زمانے کے غداروں کا ذکر پڑھ کر ہم غم واندوہ میں ڈوب جاتے ہیں لیکن ایک وقت معین پر جب پاکستانی تاریخ کے غداروں کی تفصیل سامنے آئے گی تو ہم فیصلہ نہیں کر پائیں گے کہ ماضی کے کردار غداری میں بڑے تھے یا آج کے غدار ۔ اس کے ساتھ ان غداروں کے سہولت کاروں ، مددگاروں ، کارندوں اور نمک خواروں کی بھی بے نقابی ہو جائے گی۔ پاکستان گزشتہ 78سالوں میں جن حالات وواقعات اور سانحات سے گزرا ہے وہ تمام اس بات کی دلالت کرتے ہیں ۔
قائداعظم محمد علی جناح ابھی بستر مرگ پر ہی تھے کہ پاکستان کا کنٹرول طالع آزماؤں نے سنبھال لیا تھا، اس کے بعد پاکستان جن بحرانوں سے گزرا اس کا سہراان ہی طالع آزما کرداروں کے سر جاتا ہے ۔ اس میں پے درپے مارشل لاء اور پاکستان ٹوٹنا بھی شامل ہے ۔
یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت کی قیادت نے تو کسی حد تک آزادی کے موقع سے فائدہ اٹھایا اور نئے ملک میں آئین سازی کا کام جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا، پارلیمانی نظام کو اپنایا اور عام انتخابات کرانے اور نتائج تسلیم کرنے کی روایت کی داغ بیل ڈال دی لیکن پاکستان ابتداء ہی سے حقیقی جمہوریت اور آزادی کے ثمرات سے محروم رہا ہے اور آج تک محروم ہے ۔
اب پاکستان تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر آگیا ہے جہاں ری برتھ آف مڈل ایسٹ اس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ پاکستان پر سامراجی کنٹرول کس طرح قائم ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قائداعظم جب اپنی زندگی کے آخری دن کراچی کے ماڑی پور ہوائی اڈے پر اترے تو نامعلوم اشارے پر ہوائی اڈے پر کوئی بھی اہلکار اور حکومتی عہدیدار موجود نہیں تھا جو کہ پروٹوکول کے تحت ضروری تھا۔
دوسرا جو ایمبولینس قائداعظم کو لینے کے لیے بھیجی گئی وہ اس قدر ناکارہ تھی کہ آدھے راستے میں ہی خراب ہو گئی یعنی اس کا انجن جواب دے گیا۔ ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس کا سفر 13/14کلو میٹر جو بمشکل آدھے گھنٹے کا تھا وہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ اس وقت جب وہ زندگی وموت کی کشمکش میں مبتلا تھے ۔ یہ سزا قائد اعظم کو اس لیے ملی کہ انھوں نے انگریزوں اور ہندوؤں، کانگریس اور ان کے مسلمان حواریوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان بنایا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اور کابینہ کے سیکریٹری جنرل پیشگی اطلاع کے بغیر قائداعظم سے ملاقات کے لیے 30اگست کو اچانک کوئٹہ پہنچے ۔
تاریخ کے ذرایع سے پتہ چلتا ہے کہ فاطمہ جناح انھیں فوری طورپر ملانا نہیں چاہتی تھیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ انھیں آنے دو۔ مادر ملت فاطمہ جناح نے اپنی کتاب مائی برادر میں بہت سے حیرت انگیز انکشافات کیے جو بعدازاں سنسر کر دیے گئے ۔ ان واقعات کی تصدیق سینئر بیوروکریٹ قدرت اﷲ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں بھی کی ہے۔ اس کتاب کو مادرملت کی زندگی میں چھپنے سے روک دیا گیا آخر کار یہ کتاب ان کی وفات کے بیس برس بعد چھپی جب کہ وہ اس کی تصدیق کے لیے زندہ نہ رہیں ۔
اس زمانے کے انڈین ہائی کمشنرسری پرکاش نے بھی اپنی کتاب میں قائداعظم کی وفات کی اطلاع، وزیر اعظم لیاقت علی خان کی مصروفیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ پھر خود لیاقت علی خان کے ساتھ کیا ہوا ۔ قائد کے انتقال کے بعد ان کو بھی قتل کردیا گیا اور ساتھ ہی فوراً ان کے قاتل کو بھی، یعنی پاکستان کی ابتداء ہی سامراجی سازشوں سے شروع ہو گئی۔
ایک طرف قائد اعظم کے معالج ہندو ڈاکٹر جے اے پٹیل کا کردار دیکھیں تو دوسری طرف قائد کے مخالفین کا کردار ۔ جنھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ پاکستان کو وجود میں آنے سے ہر قیمت پر روکا جائے ان میں بڑے بڑے وہ مسلم زعما شامل تھے جن کا اب نام بھی لینا دشوار ہے ۔ جب وہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوئے تو قائداعظم کے پاکستان پر قبضہ کرنے کے لیے پاکستان آگئے مسلمانوں کو مزید مسلمان کرنے کے لیے، جس کا نتیجہ آخر کار مذہبی جنونیت ، شدت پسندی اور دہشت گردی کی شکل میں نکلا ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ان کی مذہبی جنونیت ، دہشت گردی امریکی سامراج کو ایسی بھا گئی کہ ان کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں۔ پاکستان کے اقتدار پر قابض مفادپرست اشرافیہ نے ان کی سرپرستی شروع کر دی اور امریکی سامراج کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ نتیجے میں پاکستان مذہبی جنونیت کا شکار ہو گیا ۔
مذہبی شدت پسندی کی فصل جب پوری طرح پک کر لہلہانے لگی تو امریکی سامراج نے افغانستان کی مذہبی قوتوں پر اپنا دست شفقت رکھ دیا کہ ان کو خام مال کے طور پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کرنا تھا۔ جس کے لیے امریکا نے ان پر اربوں ڈالر خرچ کیے ۔ مقامی سامراج اور عالمی سامراج کا اس معاملے میں گٹھ جوڑ ہو گیا اور آج تک یہ دونوں ان شدت پسندوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
پاکستان اور ان کا مستقبل اب ری برتھ آف مڈل ایسٹ میں چھپا ہے جو عنقریب متوقع ہے۔