ایک التجا

ہمارے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے اِس دور میں جس کرب و ابتلا سے گذر رہے ہیں اُنہیں مجوزہ لانگ مارچ سے کوئی توقع۔۔۔


Dr Mansoor Norani July 26, 2014
[email protected]

جمہوری نظام کو یونہی ایک بہترین نظام قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ دورِ حاضر اور اقوامِ عالم میں رائج دیگر نظاموں سے کئی درجہ بہتر اور اچھا نظامِ حکومت ہے۔گرچہ ابھی اِس میں کئی چھوٹی موٹی خامیاں ضرور موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی یہ اصلاحِ احوال اور قومی ترقی و خوشحالی کے لیے ایک صحیح اور درست نظام حکومت ہے بشرطیکہ اِسے اِس کے اُصولوں ، طور طریقوں اور قواعد کے عین مطابق چلایا جائے۔

اِس نظامِ حکومت میں حکمرانوں کے کاموں پر عام لوگوں کی نظر اور گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔ کوئی بھی غیر قانونی اور غیر آئینی فعل اور عمل کی گنجائش نہیں۔ حکومتِ وقت کو دستور اور آئین کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے اُس کے دائرہ کار میں رہنا ہوتا ہے۔ کوئی حکومت آئین سے باہر رہتے ہوئے اپنا حکم اور زور نہیں چلا سکتی۔ اُس کے ہر غیر قانونی اقدام کو عدلیہ میں باآسانی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح ہم نے سابقہ پیپلزپارٹی دورِ حکومت میں دیکھا جہاں اُس کی سول اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں بے جا مداخلت اور مالی بدعنوانیوں کو موقعے پر ہی عدالت کے روبرو پیش کر دیا گیا اور اُسے مزید کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں سے روک دیا گیا۔

رینٹل پاور منصوبوں میں ہیرا پھیری اور حج کرپشن سمیت کئی اور بڑے بڑے مالیاتی اسکینڈلوں کی بروقت سرزنش کی گئی اور اُسے کسی حد تک قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے سے باز رکھا گیا۔ گرچہ قانونی سقم اور نقائص کے سبب عدلیہ اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا لیکن اِسی جمہوری نظام کی خوبصورتی کی وجہ سے عوام نے اُنہیں اقتدار کے ایوانوں سے باہر کردیا۔

اب مسلم لیگ (ن) اپنے تیسرے دورِ حکمرانی میں اِسی طرح احتسابی اور تطہیری عمل سے گذر رہی ہے، جہاں اُسے اپنے ہر غلط اور نامناسب اقدام پر عوام کی جانب سے غیض و غضب کا فوری سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جمہوری نظام کے فوائد اور ثمرات فوری طور پر دِکھائی نہیں دیے جا سکتے۔ رفتہ رفتہ اِس میں بہتری کے آثار نمودار ہوا کرتے ہیں ۔ خاص کر ہمارے جیسے غیر ترقی یافتہ ملک میں جہاں آدھے سے زیادہ وقت شخصی آمریت کے ہاتھوں برباد ہوچکا ہو اور جو وقت جمہوریت کو دیا بھی گیا اُس پر بھی غیبی اور نادیدہ قوتوں کا پُراسرار سایہ ہر وقت چھایا رہا۔

خدا خدا کرکے پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور اب دوسری حکومت کو یہ موقعہ مل پایا ہے۔ لیکن افسوس کہ کچھ لوگ اپنی ناسمجھی اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل سے اِس کمزور اور ناتواں جمہوریت کو پھر سے ڈی ریل کرنے پر آمادہ اور بضد ہیں۔ اِن میں کچھ تو وہ ہیں جنھیں عوام کے ووٹوں سے اقتدار ملنے کی کوئی آس و اُمید ہی نہیں ہے۔ لہذا وہ مجبوراً یہ فعلِ قبیح اپنانے کے موجب ہوئے جا رہے ہیں۔ وہ پہلے بھی اقتدار کے دستر خان کے ہم نوالہ اور ہم رکاب بنے ہوئے تھے اور اب ایک بار پھر اپنی اِنہی خواہشوں کو تسکین دینے کی جستجو کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب تحریکِ انصاف کو صرف چار حلقوں کا غم کھایا جارہا ہے۔

وہ اِن چار حلقوں میں مبینہ دھاندلی کو بنیاد بناکر وہ کچھ کرنے پر تُلی ہوئی ہے جس کا خمیازہ ساری سیاسی پارٹیوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اُسے اپنے اعلان کردہ لانگ مارچ سے اقتدار مل پاتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ جس مبینہ دھاندلی کو لے کر وہ اپنا سیاسی شغل جاری رکھے ہوئے ہیں اُس سے اُنہیں ملکی پالیٹکس میں مسلسل اِن رہنے اور سیاسی منظر نامے میں متحرک دکھائی دینے کا احساس تو جلا پاسکتا ہے لیکن عوام الناس کی خدمت کا کوئی کارِ خیر ادا نہیں ہو سکتا۔

ہمارے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے اِس دور میں جس کرب و ابتلا سے گذر رہے ہیں اُنہیں مجوزہ لانگ مارچ سے کوئی توقع اور اُمید نہیں ہے۔ عوام کی پذیرائی کے دعویدار سیاستدانوں کو عوامی مسائل پر لب کشائی کرنے چاہیے تھی۔ یہ چار حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات کی جانچ پڑتال سے اوّل تو یہ ثابت ہرگز نہیں ہوگا کہ ایک سے زائد نشانات کے حامل شخص نے کِس پارٹی کے حق میںاپنا حقِ خود ارادیت استعمال کیا تھا اور اگر دھاندلی ثابت ہو بھی جائے تو بھلا اِن چار حلقوں سے کونسی بڑی تبدیلی رونما ہوجائے گی۔

اِس کے بعد عمران خان یقینا مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کریں گے اور اگر نئے انتخابات ہوبھی جائیں اور نتائج تقریباً اِس سے ملتے جلتے ہی سامنے آئے تو پھر کیا بنے گا۔ پھر کِس کو موردِ الزام ٹہرا پائیں گے۔ انتخابی عمل میں اگر اصلاحات مطلوب ہیں تو اُس کا راستہ بھی پارلیمنٹ ہی سے گذر کر آتا ہے۔ باہر بیٹھ کر اور لانگ مارچ کرکے یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ 2008ء کے الیکشن میں بائیکاٹ کرکے اُنہوںنے جو غلطی کی تھی اسمبلیوں سے استعفیٰ دیکر وہ پھر اُسی قسم کی غلطی دہرا رہے ہوں گے۔ جمہوری نظام میں بہتری اُس کے اندر رہ کر لائی جا سکتی ہے باہر رہ کر نہیں۔الیکشن کے پروسس میں جو اصلاحات اُنہیں لانی ہیں وہ ایوان میں بیٹھ کر ہی لانی ہونگی۔سڑکوں پر احتجاج سے افراتفری تو ممکن ہے اصلاحِ احوال کی کوئی اُمید نہیں۔

رہ گیا سوال جناب ڈاکٹر طاہرالقادری کا تو وہ صاحب تو پہلے ہی اِس جمہوری نظام کے بھر پور خلاف ہیں۔ اور وہ تو سارا نظام ہی انقلاب کے نام پر تہہ و بالا کرنے پر مصر ہیں۔گزشتہ برس بھی عین الیکشن سے قبل اُنہوں نے ایسا ہی احتجاج کیا تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ وہ چار دن کے بعد کِس طرح اپنا سازوسامان لے کر ایک غیر منطقی اور غیر حقیقی سمجھوتے کے تحت اسلام آباد سے سیدھا ٹورینٹو چلے گئے۔ اب نہ اُنہیں وہ سمجھوتہ یاد ہے اور نہ وہ بلند بانگ دعوے جو ڈی چوک پر ارشاد فرما رہے تھے۔ لگتا ہے اِس بار بھی وہ یہی کچھ دہرا نے والے ہیں۔گورنر پنجاب کی دوستی کی خاطر جس طرح وہ لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے باہرآگئے تھے،ایک بار پھر اُسی گورنر کے کہنے پر اپنے انقلاب کولپیٹ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔

جمہوریت کو صبح و شام بُرا بھلا کہنے والے اور اُس کے بدخواہوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جمہوریت ہی ہے جس کی بدولت ہی وہ یہ دنگا مستی ، ہرزہ سرائی اور دشنام طرازی کر پارہے ہیں۔ آمرانہ دور میں تو اُن کی زبانوں کوقفل لگے ہوئے تھے۔وہ نہ کسی بات پر احتجاج کرسکتے تھے، نہ لانگ مارچ کرسکتے تھے اور نہ ایوانِ صدر کے سامنے دھرنا دے سکتے تھے۔

یہ جمہوریت ہی ہے جس کے ثمرات سے وہ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور اُسے برا بھلا بھی کہتے ہیں۔اُنہیں چاہیے کہ وہ حکمرانوں کے فعل و عمل پر گہری نظر رکھیں، اُنہیں کوئی غیر قانونی کام یا کرپشن نہ کرنے دیں، اگر وہ ملک وقوم کی صحیح معنوں میں کوئی خدمت کر رہے ہیں تو اُن کا ساتھ دیں، نہ کہ افراتفری پھیلا کر سارا نظام ہی تلپٹ کرکے ملک وقوم کو تاریکی کے اندھیروں میں نہ دھکیلیں۔مثبت سوچ اور درست فہم و ادراک اختیار کرکے اپنی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیں۔اِسی میں خود اُن کی اپنی بقاء اور کامیاب سیاست کا راز پنہاں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں