بچوں میں نفرت پیدا مت کیجیے

بچوں کے ذہنوں میں نفرت کے جو بیج بو دیے جاتے ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ پھلتے پھولتے ہیں


راضیہ سید January 21, 2025

’’پھوپھو کے گھر جاکر زیادہ دیرنہیں رکنا، وہ تو جب بھی آتی ہیں جلدی چلی جاتی ہیں اور ہمارے لیے کچھ لے کر بھی نہیں آتیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کی خالہ کتنی اچھی ہیں ہم بے شک ان کے گھر کم کم جاتے ہیں لیکن وہ فون پر بھی آپ کی خیریت پوچھتی ہیں، گفٹس بھی لاتی ہیں جب کہ آپ کی دادی اور پھوپھو کی آپ کی ماما سے کبھی نہیں بنی‘‘۔

اگر کوئی بچہ اپنے ددھیال سے خفا ہوتا ہے یا ان رشتوں کے قریب نہیں جانا چاہتا تو اس میں قصور بچوں کا نہیں بلکہ ان کے والدین کا ہوتا ہے۔ پانچ سال تک کی عمر تک بچہ جو باتیں گھر سے سیکھتا ہے وہ ساری زندگی کےلیے اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں کیونکہ بچے کا ذہن ایک خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے اس پر جو بھی تحریر کردیا جاتا ہے وہ ہمیشہ کےلیے اس کے ذہن و دل پر نقش ہوجاتا ہے۔

ددھیال کے برا ہونے کے اس روایتی تصور کو بڑھاوا دینے میں سوشل میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ مذاق مذاق میں کئی پیج پھوپھو کی چالاکیوں کے عنوان سے بنا دیے گئے ہیں جن کا مقصد وقتی طور پر تفریح کا حصول ہوتا ہے، زیادہ وویوز حاصل کرنا، ویڈیوز کو وائرل کرنا اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے جو اخلاقی برائیاں پیدا ہورہی ہیں ان کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔

اس لیے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذہنوں میں جو نفرت کے بیج بو دیے جاتے ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ پھلتے پھولتے ہیں اور ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ رشتہ کوئی بھی اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ان کے ساتھ تجربہ اچھا یا ناخوشگوار ہوسکتا ہے۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ بڑوں کے درمیان اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن بچوں کو اس آگ کا ایندھن بنانا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہوتا۔

اگر بڑوں کے درمیاں پیدا ہونے والے مسائل بڑے ہی حل کر لیں تو بات بچوں تک نہیں آتی اور ایک پوری نسل بغض، کینہ، حسد اور نافرمانی سے بچ جاتی ہے۔

ہمارے ہاں بڑے بوڑھے اکثر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ تمھارے ماموں نے ہماری شادی پر بہت ہنگامہ کیا یا وہ بہت جھگڑالو ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ کو اپنی طرف کے رشتے دار یعنی ننھیال اچھے لگتے ہیں اور پوری دنیا  میں وہی معصوم لگتے ہیں جبکہ والد کو ددھیال والے سادہ اور سیدھے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے خیال میں ہمیشہ ان کے خاندان والوں کے ساتھ ہی زیادتی ہورہی ہوتی ہے۔

جب والدین اپنے رشتے داروں کا اس طرح تقابل کرتے ہیں یعنی کبھی ایک طرف تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں تو کبھی دوسرےکو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بچوں میں بھی مقابلے بازی کا رحجان پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ بھی مختلف رشتوں کے بارے میں اپنا ایک نظریہ قائم کرلیتے ہیں اور اسی پر پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔

جہاں تک میرا خیال ہے بچے خواہ کسی بھی عمر کے ہوں وہ بہت حساس ہوتے ہیں کہ وہ چچا، تایا، خالہ، ماموں سب کے پیار محبت یا معاندانہ رویے کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اس لیے بچپن میں بچوں کے دماغ میں کچھ الٹا سیدھا نہ انڈیلا جائے بلکہ انھیں موقع فراہم کیا جائے کہ وہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا اچھا برا خود سمجھ سکیں، اپنے رشتوں میں توازن پیدا کرنا سیکھ سکیں اور اپنے ذہنوں کو خاندانی سیاست سے پاک رکھ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں