چیئرمین ایف بی آر کا ادارے میں کرپشن کا اعتراف
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے اعتراف کیا ہے کہ ایف بی آر میں اب بھی کرپشن ہورہی ہے تاہم زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہونے کی وجہ سے معیشت پر دباوٴ ہے، قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری کی اجازت دینے کا جائزہ لینے کیلئے پانچ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منگل کو چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر کی زیر صدارت منعقد ہوا، چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو ٹیکس قوانین پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس قوانین میں تبدیلی ٹیکس بیس بڑھانے کیلئے ہے، زیادہ آمدن اورخاص رقم سیزیادہ کا کاروبارکرنے والوں کیلئے قوانین ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ کچھ اختیارات ایف بی آر افسران کو نئے قوانین کے تحت دیے جارہے ہیں اور کسی کے پاس کالا دھن ہے یا ٹیکس چوری کرتا ہے اس پر پابندی لگا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی نان فائلر ہے تو اکنامک ٹرانزیکشن نہیں کرسکتا، نان فائلر گاڑی، پلاٹ نہیں خرید سکتا اور سرمایہ کاری بھی نہیں کرسکتا، قائمہ کمیٹی نے نان فائلرز کو پراپرٹی کی خریداری کی اجازت کیلئے پانچ رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، ایم این اے بلال کیانی کی زیرصدارت ذیلی کمیٹی ایف بی آر اورآبادکے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرے گی 10 روز میں ذیلی کمیٹی اپنی رپورٹ قائمہ کمیٹی کو دے۔
دوسری جانب چیئرمین کمیٹی نوید قمر کی ہدایت پر کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کمیٹی شامل ہوں گے، چیئرمین ایف بی آرراشد لنگڑیال نے کہا کہ کابینہ نے آڈیٹرزکی بھرتی کا اختیار دیدیا ہے، کابینہ میں بل پرمکمل غور ہوگا اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) راشد لنگڑیال نے کہا ہے کہ ملک میں سیلز ٹیکس کی مد میں کھربوں روپے کی ٹیکس چوری کا تخمینہ ہے، ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا ٹیکس دیتا ہے، ماہانہ ڈھائی کروڑ کی آمدن کرنے والی کی کمائی 6 لاکھ تو ہوگی ان کو بھی ٹیکس دینا چاہیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ کے دوران چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ بیشتر صنعتی صارفین سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہیں جنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے نیا قانون لایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سیلز ٹیکس جنرل آرڈر جاری کیا جائے گا، آرڈر کے تحت بجلی کے بل کی ایک حد مقرر کی جائے گی، یہ لوگ صنعتی بجلی لیتے ہیں اور ان میں بڑے صنعتی یونٹ بھی ہیں۔
راشد لنگڑیال نے کہا کہ سالانہ 25 کروڑ روپے آمدنی والے کو ٹیکس دینا چاہیے، جب ماہانہ 50 ہزار تنخواہ والا ٹیکس دیتا ہے، تو ان کو بھی دینا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کا بینک اکاونٹ معطل کرنے کا اختیار ایف بی آر مانگ رہا ہے، اکاوٴنٹ معطل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے کاروبار پر اثر پڑے، 10 کروڑ روپے ماہانہ بجلی کا بل ادا کرنے والے کو پابند بنانا چاہ رہے ہیں، ان کو باقاعدہ طور پر پیشگی نوٹس بھیجا جائے گا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ سیلز ٹیکس رجسٹریشن کے لیے ایسے صنعتی یونٹ کو 15 دن کا وقت دیا جائے گا، اس پر سماعت ہوگی اور اس کے بعد صنعتی یونٹ رکھنے والے کو اپیل کا بھی حق دیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی رکن حنا ربانی کھر نے کہا کہ بینک اکاوٴنٹ کی بندش نہایت ڈریکونین قانون ہوگا اس پر قوانین میں شفافیت ضروری ہے، کسی کا بینک اکاؤنٹ معطل ہوگا تو وہ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کے تحت بینک اکاوٴنٹس بند کرنے سمیت انتہائی سخت اقدامات لیے جارہے ہیں اس قانون کے تحت ایف بی آر افسران سے ہر طرح سے ڈیل کرنا ہوگا، ایف بی آر افسران پر کسی کو اعتبار نہیں ہے۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بینک اکاوٴنٹ بند نہ کیا جائے، نوید قمر نے کہا کہ اتنے سخت اختیارات دینے سے پہلے یقین دلایا جائے کہ ایف بی آر ٹیکس آمدن کو اپنے اخراجات پر خرچ نہیں کرے گا۔
وزیرمملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ پائیدار ترقی کی بات کرتے ہیں تورسمی معیشت کاعدم توازن دور کرنا ہوگا اور کالے دھن سے گاڑیاں خریدنے کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
چیئرمین نے بتایا کہ سال 2008 میں جتنا ٹیکس اکھٹا کیا تھا اتنا ہی 2024 میں ہوا، ہم نے ایک فیصد سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کو بھی بڑھایا ہے، تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا، شرح نمو ، مہنگائی کے تناسب سے ٹیکس محصولات میں اضافہ نہیں ہوا۔