خصوصی افراد کی زندگیوں کو درپیش چیلنجز
دنیا میں موجود ہر ذی نفس اللہ کی تخلیق ہے۔کوئی بھی شخص خواہ وہ کسی بھی رنگ نسل، قوم قبیلے، یا خطے سے تعلق رکھتا ہو وہ قابل احترام ہے کیونکہ یہ سب وہ حوالہ جات ہیںجو کسی بھی فرد کو پیدائشی طور پر ملتے ہیں اور کوئی بھی شخص یہ چننے کا اختیار نہیں رکھتا کہ اسے کس کے گھر پیدا ہونا ہے یا کس شکل و صورت کے ساتھ۔ ایسے افراد جو پیدائشی کسی بھی جسمانی معذوری کا شکار ہوںیا حادثاتی طور پر کوئی معذوری لاحق ہو جائے انھیں ایک بوجھ کی طرح سمجھ کر الگ کر دیا جاتا ہے ۔
معاشرے میں ان کے کردارکو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ کوئی بھی شخص بے کار نہیں اور قدرت نے کسی بھی تخلیق کو بنا مقصد پیدا نہیں کیا۔ یہاں اقبال کا وہ شعر بر محل ہے کہ
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
قدرت ہر کسی کو کوئی نہ کوئی خوبی عطا کرتی ہے اس تفریق سے بالاترہو کر کے کسی کی جسمانی ساخت شکل و صورت کیسی ہے۔معذور افراد خواہ حادثاتی ہوں یا پیدائشی اپنے اندر ایک مکمل انسان کی شخصیت رکھتے ہیں اور ان کے جذبات و احساسات بھی اسی قدر اہمیت کے حامل ہیں جیسے کسی دوسرے کے۔
دنیا میں ایک ارب تیس کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہیں یعنی ہر چھ میں سے ایک فرد کسی معذوری کا شکار ہے۔ اور اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ معذوری کے شکار افرادکی 80فیصد تعدادترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں 3دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد معذور افرادکے حوالے سے آگاہی اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کی اہمیت محسوس کرنا ہے۔
پاکستان میں بسنے والے معذور افراد کی تعدادتقریباً ساڑھے تین کروڑ ہے۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا 2.5فیصد تھے جو 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کم ہو کر محض 0.44فیصد رہ گئے ، ان کی کل تعداد 9لاکھ13ہزار667تھی۔جن میں مردوں اور عورتوں کا تناسب بالاترتیب 62اور 38فیصد رہا۔ صوبوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو معذور افراد کی سب سے بڑی تعداد صوبہ پنجاب میں رہائش پذیر ہے اور ستر فیصد معذور افراد دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ 1981ء میں معذوری کے متعلق قانون سازی کی گئی اور ’’ڈس ایبیل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبیلی ٹیشن آرڈیننس‘‘ متعارف کروایا گیا۔ حکومت کی جانب سے معذور افراد کو دو ہزار ماہانہ وظیفہ دینے کا پروگرام بھی موجود ہے لیکن یہ ایک مضحکہ خیر پروگرام ہے مہنگائی کے اس دور میں دو ہزار ماہانہ پہ کوئی شخص کیا ہی گزارا کر سکے گا ۔ اور یہ بھی معذوری سرٹیفکیٹ اور دیگر شرائط کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اب حکومت پاکستان نے معذور افراد کے لئے معذوری سرٹیفکیٹ کے اجراء کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ یہ ایسی دستاویز ہے جو معذوری کی قسم اور حد کی تصدیق کرتی ہے۔یہ معذوری کی نوعیت کے بارے میں میڈیکل بورڈ کی سفارش پر جاری کیا جانے والا سرٹیفیکیٹ ہے۔اس کے فوائد میں مالی امداد تک رسائی ، مخصوص حالات میں ٹیوشن فیس سے استثنیٰ، حکومتی اداروں کی بھرتی میں اہلیت شامل ہیں۔ اور اس سرٹیفکیٹ پر پاکستان بیت المال کی جانب سے درخواست دائر کرکے وہیل چیر اور مالی معاونت بھی مل سکتی ہے۔ معذوری سرٹیفیکیٹ کی درخواست کے لئے مقامی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال یا سوشل ویلفئیر ڈپارٹمنٹ کے دفتر سے فارم حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں معذور افراد سے متعلق اس وقت مختلف صوبوں میں اسکولز، کالجز، انسٹی ٹیوٹس، ایجوکیشن سینٹرز، ری ہیبیلیٹیشن دسینٹرز، ایجوکیشنلرٹریننگ سینٹرز، ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز، ویلفیئر سوسائٹیز، آرگنائزیشنز، ٹرسٹس ، کونسلز اور ترقیاتی پروجیکٹس حکومتی اور پرائیوٹ سطح پر کام کر رہے ہیں۔نادرا نے خصوصی افراد کی رہنمائی کے لئے ایک ہیلپ لائن بھی متعارف کروا دی ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ معاشرے میں معذور افراد کے ساتھ سلوک اور انھیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے کارکردگی گراؤنڈ ریلٹی میں مختلف دکھائی دیتی ہے۔ ایک کوئی انسان کسی ایک معذوری کا شکا ر ہوتا ہے تو اس میںکوئی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے جس کو اگر پالش کیا جائے اور سازگار ماحول فراہم کیا جائے تو بہترین کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے اگر کوئی معذور فرد آگے نکلنے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کی تنگ نظری کا شکار ہو جاتاہے ۔ معاشرتی رویے اتنے بھیانک ہیں کہ ان کی بدصورتی ہر فرد کو ڈرا دیتی ہے۔
لفظی ہمدردیا ں اور کاغذی کاروائیاں تو بہت ہوتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں آگے بڑھ کر معذور افراد کو معاشرتی اور معاشی طور پر خودمختار بنانے کی کوشش کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔سرکاری کوٹہ ایک تو معذود افراد کے تناسب سے کم رکھا گیا ہے اور اس میں بھی میرٹ کے نام پر بہت سے مستحقین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کسی سرکاری محکمے میں جانے کی صورت میں معذور افرادکو ایک اذیت سے گزرنا پڑتا ہے ۔
ہونا تو یوں چاہیئے کہ خصوصی افراد کے لئے سرکاری اداروں میں آسانی کو ملخوظِ خاطر رکھتے ہوئے سپیشل کاونٹرز بنائے جاتے ۔جہاں انھیں سہولت بھی دی جاتی اور ان کی خودمختاری کو ٹھیس بھی نہ پہنچتی۔پاکستان میں معذور افراد کے لئے صرف دو فی صد نوکریوںکا کوٹہ ہے۔ ایسا ملک جہاں معذوروں کی بڑی تعداد موجود ہے وہاں صرف دو فیصد کوٹہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے معذوروں کی فلاح و بہبور کے لئے جامع پالیسیاں مرتب کر رکھی ہیں۔
OECDممالک کی تنظیم ایک ایسا منفرد فورم ہے جہاں 37جمہوری حکومتیں
معاشی واقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے معیارات تیار کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہیں۔ ان میں اٹلی وہ ملک ہے جہاں معذور افراد کے لئے کوٹہ سب سے زیادہ رکھا گیا ہے جو کہ 7%ہے اور اس کی دیکھا دیکھی فرانس اور پولینڈنے بھی یہ کوٹہ 6%، جرمنی اور پرتگال5%، آسٹریلیا4%، ترکی 3%اور سپین اور بیلجئیم میں 2%رکھا گیا ہے۔
ضروری ہے کہ خصوصی افراد کو نوکریوں میں برابر کی تنخواہ اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی کی گاڑی کو خود دھکا لگانے کے قابل ہوجائیں۔
تعلیمی حوالے سے دیکھاجائے تو معذور افراد کے لئے تعلیم کجا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ صرف سکول بنا دینا ہی کافی نہیں ہوتا انھیں گھر سے سکول نقل و حمل کے لئے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا شاید حکومت کو اندازہ ہی نہیں۔ خصوصی افراد کے لئے ٹرانسپورٹ سسٹم فریندلی ہونا ضروری ہے۔
اگر وہ خوش قسمتی اور کڑی محنت سے تعلیم حاصل کر لیں تو نوکری کے لئے ذلالت الگ سے اٹھانی پڑتی ہے۔دیکھا جائے تو معذوری کے باوجود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افراد کو ترجیحی بنیادوں پر بغیر کسی امتحان کے حاصل کردہ ڈگری پر ملازمت مل جانی چاہیئے۔ کیونکہ کسی معذور شخص کی وہ ڈگری خود اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ اہلیت رکھتا ہے۔ اور حکومت کو چاہیئے کہ وہ معذور افرادکو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لئے پیشہ ورانہ تعلیم پر توجہ دیں اور جو لوگ بالغ ہو چکے ہیں۔
ان کو ہنر سیکھانے کا بندوست کیا جائے تاکہ وہ اپنی ضروریات کے لئے کسی کے محتاج نہ ہوں۔ اس کے علاوہ بھی معذور افراد کو ایک نارمل انسان کی طرح معاشرتی حقوق اور سرگرمیوںمیں حصہ لینے کے لیے سازگار ماحول میسر نہیں، مثلاً ایک معذور شخص قابلیت ہونے کے باوجود سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا ، الیکشن میں حصہ لے کر لیڈر نہیں بن سکتا کیونکہ لوگ مذاق اڑاتے ہیں معاشرہ طنزو مزاح کا نشانہ بناتا ہے،آوازیںکستا ہے۔
سیاست تو دور کی با ت معذور افراد کے لیے اپنی فطری ضروریات کو پورا کرنا بھی ناممکنات میں شمار ہونے لگتا ہے۔خصوصی افراد کے لئے شادی کرنا ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ معذور افراد اپنے جیسے ہی کسی سے شادی کریں۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ہے کہ کوئی بھی پیدائشی یا حادثاتی معذوری کسی شخص کو اس کی فطری ضروریات سے محروم نہیں کرتی ہاں ان ضروریات کے پورا ہونے یا کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔ جس کا بڑا سبب عموماً معاشرتی رویے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ تربیت کی کمی بھی ہے۔
ہمارے ہاں لوگوں کی معذوری کو لے کر مذاق اڑانے کارواج عام ہے کسی کو بھولا کہنا، اندھا کہنا ، لنگڑا کہہ کر مذاق اڑانا بڑی معمولی سی بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ احساس کئے بنا کہ وہ شخص اپنی مرضی سے معذور نہیں ہوا۔ والدین کو خصوصاً اس طرح کے تضحیک آمیز رویوں سے اپنے بچوں کو روکنا چاہیے اور خصوصی افراد کے ساتھ مشفقانہ سلوک روا رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ دین اسلا م نے بھی معذور افراد کے ساتھ صلح رحمی سے پیش آنے کی تلقین کی ہے۔ یہاں تک کہ قران پاک کی ایک سورہ عبس میں نابینا اور دیگر معذوروں کے حوالے سے نرمی اور رحم دلی کی تلقین کی گئی ہے۔
دین اسلام میں کسی بھی شخص کی جسمانی کمزوری کو وجہ بنا کر اس کی عزت و توقیر میں کمی کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔بلکہ نبی کریمؐ کی سیرت سے ہمیں بیشتر ایسی مثالیں اور واقعات ملتے ہیں جو معذوروں اور لاچاروں سے شفقت و محبت کی اعلٰی مثال پیش کرتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اس بات کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام کیا کہ کوئی شخص فقرو فاقہ میں مبتلا نہ ہو اور حکم جاری کیا کہ مفلوج اور اپاہج افراد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔ریاست کی حیثیت ماں کی سی ہوتی ہے اور وہ اپنے سارے بچوںکو اپنی آغوش میں لیتی ہے خواہ وہ مکمل ہوں یا ادھورے۔ تو معذور افراد بھی اس ریاست کا حصہ ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ انھیں بھی تمام حقوق دیئے جائیں اور ان کو بھی ریاست ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے!
کوٹہ سسٹم کیا ہے؟
کوٹہ سسٹم کو عام طور پر مختلف پروگراموں اور پالیسیوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جیسے ملازمت کی مشاورت کے طور پر خصوصی ملازمتوں کی تخلیق جس کا مقصد ان معاشرتی طبقات کو معاشی دھارے میں شامل کرنا ہوتا ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مجوزہ میرٹ پر پورے نہیں اتر پاتے۔