زباں فہمی نمبر ، 234 چائے چاہیے……
’’چائے چاہیے........
کون سی جناب؟
........ہی تو ہے
........عمدہ ہے،........لیجئے
........پیجئے!‘‘
راقم کی طرح، ہمارے معاصرین اور بزرگ معاصرین نے اپنے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی میں پاکستان کے اِکلوتے ٹیلیوژن چینل ’پی ٹی وی‘ پر تقریباً روزانہ یہ اشتہار (TVC=TV Commercial) بار بار چلتے ہوئے دیکھا سُنا ہوگا۔ خاکسار شعبہ تشہیر سے دیرینہ تعلق کی بناء پر، یہ سمجھتا اور کہتا ہے کہ چائے نوشی سے متعلق اس سے بہتر، اختراعی نوعیت کا اشتہار [Creative Advertisement] ہمارے یہاں کبھی نہیں بنا، البتہ بہت بعد اس سے بہتر نہ سہی، کچھ اچھے اشتہار ات ضرور بنے۔ یہاں نامور کرکٹر جناب مشتاق محمد کا ایک TVCیاد آتا ہے، جس میں سب سے پہلے یہ اختراعی تشہیرہ فقرہ [Creative slogan] سننے کو ملا:
دانے دانے پہ لکھّا ہے ، پینے والے کا نام
بات کی بات ہے کہ پرانے شہر کا ایک معمولی دُکاندار اپنی چائے کی تشہیر سے اس قدر کامیاب ہوا کہ اس کاروبار سے جُڑے بڑے بڑے ناموں پر بُرا وقت آگیا۔ ایسا کرشمہ مسلسل لگن، محنت اور عمدہ تشہیر کے طفیل ہی ہوا۔ چائے سے بڑھ کر کوئی مشروب ایسا نہ ہوگا جس کی تشہیر، دنیا بھر میں، تمام اقسام کے ذرایع ابلاغ کے توسط سے ایسے ہوئی ہو۔ اس کے برابر یا ٹکّر پر، کافی [Coffee] کا نام لیا جاسکتا ہے، لیکن پاکستان میں شاید اس پائے کا کوئی اشتہار ٹی وی، اخبارات، جرائد اور دیگر ذرایع نے جاری یا شایع نہیں کیا جو ’ کافی‘ کی مقبولیت کی طرف اشارہ بھی کرتا ہو۔ طبّی لحاظ سے چائے کے کچھ نہ کچھ فوائد بھی ہوں گے ، مگر چائے کے مخالفین اسے ہر لحاظ سے نقصان دہ اور فضول قرار دیتے ہیں۔ ہمارے فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹر احمد سہیل (مقیم امریکا) نے فرمایا کہ ’چائے عقل چُوس مشروب ہے‘۔
تشہیر کا اصول ہے کہ اشتہار میں ترغیب کا عُنصُر نمایاں ہو اور پیشکش اس قدر بھرپور ہو کہ خواہ بیچنے والا شہد کے نام پر زہر فروخت کررہا ہو، دیکھنے سننے والے کا ذہن متأثر ومرعوب ہوئے بغیر نہ رہے۔ (وطن ِ عزیز میں بہت سے ایسے نام ہیں۔ کراچی میں ایک بریانی والے نے طُلبہ کے نام پر بہت کمایا، مگر بخدا خاکسار نے 1988ء سے آج تک اُس کی بریانی معیاری نہ پائی )۔
کئی سال پہلے راقم نے اپنے حلقے میں یہ سوال کیا کہ چینی زبان کاوہ کونسا لفظ ہے جو نہ صرف اُردو بلکہ پاکستان کی مختلف مقامی زبانوں میں بھی اس قدر مشہور ومقبول ہے کہ شاید ہی کوئی پاکستانی ایسا ہوگا جو تقریباً روزانہ یہ لفظ نہ بولتا ہو;اکثریت جواب دینے سے قاصر رہی۔ جواب ہے: چائے۔ {چینی زبان میں Cantonese اور Mandarin لہجوں کے فرق سے ’چاء‘ ہی الف کھینچ کر بولے جانے کے سبب ’چآء‘ اور شاید مابعد دوسری زبانوں میں جاکر ’چائے‘ بن گیا}۔ پنجابی اور سرائیکی میں ’چاء‘ ہے، پشتو میں بھی ہے تو ’چاء‘ ، مگر پشتون/پختون بھائی آواز دَباکر ’چَے‘ بولتے ہیں، دیگر مقامی زبانوں میں بھی کم وبیش یہی صورت ہے کہ یا تو لفظ وہی ہے یا تلفظ۔ اس سے بھی چائے کی ملک گیر مقبولیت ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان بھر میں آپ کہیں بھی جائیں، چائے مانگیں تو چائے ہی ملے گی، کچھ اور نہیں!
چائے سے معمولی رغبت رکھنے والے، اس راقم نے شعبہ تشہیر میں اپنے بعض یادگار (خصوصاً چائے کی مختلف مصنوعات کے) اشتہارات میں، نیز سلسلہ زباں فہمی میں چائے کو چاہ سے مِلایا ہے، جیسے ’جہاں چاء، وہاں چاہ‘ (یا برعکس)۔ (میرے داداجان مرحوم، والد گرامی مرحوم اور بہن بھائیوں میں چائے سے رغبت مشترک ہے)۔ ہمارے دادا جان مرحوم سمیت بہت سے پُرانے بزرگ ’چاء ‘ کہا کرتے تھے اور کہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قدیم اُردو میں یہی تلفظ مستعمل تھا۔ اسی طرح ہندی اور اُردو کی جڑوں میں شامل زندہ بولی، اَودھی (اور اَب زبان) ہے جس میں ’چاء‘ (Chaah) ہی کہا جاتا ہے، جبکہ جدید ہندی میں یہ چائے بن چکا ہے۔ (ہمارے دادا جان پُوربی اور پنجابی میں طبع آزمائی کیا کرتے تھے۔ اُن کا بعض کلام موزوں بھی تھا جس کی مثال خاکسار کے مضمون بر ’پُوربی‘ بہ سلسلہ زباں فہمی میں شامل ہوچکی ہے)۔ بنگلہ میں بھی ’چاء ‘ ہے۔ یہ لفظ ’چاء‘ سے چائے کب بنا، اس بابت کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن بیسویں صدی کے آغاز کے لگ بھگ، شایع ہونے والی فرہنگ ِ آصفیہ کے مؤلف سید اَحمد دہلوی کا کہنا تھا کہ یہ لفظ ختائی زبان [Khitan] سے نکلا ہے۔ یہاں خاکسار کچھ اضافہ اور تصحیح ضروری سمجھتا ہے۔ ’ختا‘ ۔یا۔’خطا‘ یا بہ اختلاف ِ تلفظ خطای یا ختائی سے مراد شمال اور شمال مغربی چین کا خطہ ہے جس میں منچوریا، منگولیا (مُلک نہیں، بلکہ چین کا صوبہ) اور مشرقی تُرکستان عرف سنکیانگ (شن جی ژانگ) کے علاقے شامل ہیں۔ سنکیانگ میں صدیوں سے مسلمان بستے ہیں۔ اس کا قدیم شہر ’ختا/خطا‘ ہی ’نان خطائی کا وطن ہے ;علاوہ اَزیں یہاں کا اور دوسرے قریبی مقام خُتَن کا مُشک بھی دنیا بھر میں مشہور ہے جو ایک مخصوص ہرن کے نافے سے نکلتاہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک شعر نظیرؔ اکبر آبادی کا ملاحظہ فرمائیں:
لکھا جو مُشک ِ خطا، زُلف کو تو بل کھا کر
کہا خطا کی جو یہ حرف ِ ناصواب لکھا
اس سے بھی بڑھ کر آپ ک وگلوکار سلیم رضا کی گائی ہوئی مقبول فلمی غزل ’’جان ِبہاراں، رشکِ چمن‘‘ یاد دلاؤں جس میں نغمہ نگار نے کہا کہ ’’زُلفیں تِری مُشک ِ خُتَن، اے جانِ من‘‘۔ یہ ہماری عمر کے لوگوں کو زبانی یاد ہوا کرتی تھی۔ بات کی بات ہے کہ 1958ء میں کانپور سے ایک شاعر جناب ابوالفضل جان محمد اظہرؔ ’شاعرِ زرّیں‘ کا مجموعہ کلام ’مشکِ ختن‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا جوآنلائن دستیاب ہے۔ اسی نام سے ایک دیوبندی عالم شاہ جلیل احمد اخون صاحب کے سوانح حیات بھی شایع ہوچکے ہیں۔
اب ذرا خُتَن کے ذکر پر بھی ایک شعر ہوجائے جسے چینی Hotanکہتے ہیں:
کیا رنگ تیری زُلف کی بُو نے اُڑادیا
کافور ہو کے مُشک ، خُتَن سے نکل گیا
(امیرؔ مینائی)
ذرا دیکھیے تو امیرؔ جیسے استادِ سخن نے ’کافور ہونا‘ کا محاورہ کس خوبی سے استعمال کیا ہے۔ ایک اور شعر بھی آپ کی نذر کرتا چلوں:
وہ زلفِ سیہ ہے کہ مشک ِختن ہے
نہیں خط، سوادِ دیار ِحلب ہے
(رندؔلکھنوی)
ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ سید احمد دہلوی صاحب نے فرہنگ آصفیہ میں کیا لکھا ہے: ’’چائے۔ ف (یعنی فارسی: س اص)، اسم مؤنث۔ ایک قسم کی پتّی ہے جسے قہوہ کی طرح جوش دے کر پیتے ہیں۔ عربی ’صائے ‘ یا ’شائے‘۔ مزاجاً دُوُم درجہ میں گرم وتَر۔ چائے ختائی زبان کا لفظ ہے جس کو فرنگستان (یعنی انگلستان و یورپ: س اص) کی زبانوں میں کسی قدر تغیّر کے ساتھ ’ٹی‘ کہتے ہیں۔ اس غلطی کی وجہ یہ ہے کہ سرزمینِ ختا کے بعض اُن پرگنوں کے باشندے جو سمندر کے کنارے پر آباد ہیں، غلطی یا دیہاتی پن کے سبب سے، چاء کو ’ٹا‘ کہتے ہیں ۔ فرنگیوں کی راہ ورسم اوّل اوّل اُنہیں لوگوں سے ہوئی اور اِس وجہ سے یہ غلط لفظ اُن کی زبانوں پر بھی چڑھ گیا اور رَفتہ رفتہ فرنگستان تک پہنچا اور وہاں اوّل خاص وعام میں ’ٹا‘ اور پھر کثرتِ استعمال سے صُورت بِگڑ کر ’ٹی‘ مشہور ہوگیا‘‘۔ اوپر خاکسار نے عرض کیا کہ یہ ’ٹا‘ نہیں ’تا‘ ہے (اور غالباً کھینچ کر کہنے کی وجہ سے تائے ہی معلوم ہوگا)‘‘۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم اردو اور علاقائی زبانوں میں ’چائے پانی‘ سے مراد کسی معاملے میں کسی مہمان کی تواضع کے علاوہ، رشوت بھی لیتے ہیں یعنی ایک تو یہ کہ فُلاں صاحب! کوئی چائے پانی پیش کروں اور دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص ناجائز، غیرقانونی کام کے لیے رشوت طلب کرکے کہے کہ ’چائے پانی‘ ہی دے دو یا ’چائے پانی کا خرچہ ہی دے دو‘۔ فرہنگ ِآصفیہ بتاتی ہے کہ یہ تو انگریز کے دور میں بھی رائج ترکیب تھی۔ ’’اسم مذکر ، جس کا مطلب تھا: انگریزوں کی صبح کے وقت کی ضیافت، ہلکی ضیافت ‘‘یعنی آسان لفظوں میں یہ ناشتے کا اُس وقت کا نام تھا۔ یہاں ایک اور انکشاف بھی توجہ چاہتا ہے۔ ہمارے یہاں چائے کے برتن کو چائے دانی یا چائے دان کہا جاتا ہے، لیکن اس کا ایک پرانا نام ’چائے پوچی‘ بھی تھا۔ ساتھ ساتھ ایک اور دل چسپ بات بھی، انگریزی میں چائے دان کو Teapot کہتے ہیں۔ اس کا مادہ اشتقاق، ولندیزی یعنی ڈچ زبان کا لفظ ہے: theepot۔
اب ذرا ’خطا ‘ کا ذکر کریں۔ یہ نام ’خطا‘ ہی آگے چل کر Cathay بنا جو پورے ملک چین کا قدیم نام تھا اورآج بھی اُن کی ہواباز کمپنی کا نام ہے۔ یہاں خطائی یا ختائی زبان بولی جاتی تھی جو منگول زبانوں کی ہم رشتہ تھی اور اُس میں حرف ’ٹ‘ نہیں تھا۔ یہ زبان شاید اب محض منگولیا تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اس خطے کی دوسری نمایاں زبان ویغور (Uyghur ) ہے جسے ہمارے یہاں عموماً مختلف املاء کی وجہ سے سہواً اویغور یا اوئی غور بولاجاتا ہے۔ یہ تُرکی کی بہن ہے۔
چائے کو دُنیا کی اکثر زبانوں میں اسی نام سے یا مماثل نام سے پُکارا جاتا ہے۔ یہ حیرت انگیز انکشاف یقیناً لسانی معلومات میں بہت بڑے اضافے کا سبب ہے۔ چین کے ہمسایہ ملک کوریا کی زبان کوریائی میں اسے ’چا‘ کہا جاتا ہے۔ مقدونیہ کی زبان یعنی مقدونی (Macedonian) میں چائے کو chaj لکھ کر چائے ہی کہا جاتا ہے۔
فارسی میں چائے کو چائے ہی کہتے ہیں۔ تُرکی زبان میں چائے کو Çay یعنی چائے ہی کہتے ہیں، (بحوالہ اردو۔ترکی/ تُرکی اردولغت از ڈاکٹر احمد بختیار اشرف و ڈاکٹر جلال صوئیدان، انقرہ ۔ ترکی: 2022ء)، اسی کے اثر سے البانوی(Albanian ) میں بھی ( لیکن ہجّے کے فرق سے) چائے (Çaj) ہے تو آذری (آذربائیجانی) میں بھی caj لکھ کر چائے ہی بولا جاتا ہے۔ اسی کے اثر سے البانوی (Albanian ) میں بھی (لیکن ہجّے کے فرق سے) چائے (Çaj) ہے تو آذری (آذربائیجانی) میں بھی cajلکھ کر چائے ہی بولا جاتا ہے۔ بُلغاری (Bulgarian) زبان میں شاید تُرکی ودیگر مشرقی زبانوں کے اثر سے، چائے ہی بولا جاتا ہے۔ داغستان (رُوس کے زیرِتسلط مسلم ریاست) کی زبان، اَوار ( Avar) یا اوارِک(Avaric) میں املاء کے فرق سے قطع نظر ’چائے‘ (Caj)، کروشیئن (Croatian) میں بھی ’چائے‘ ( Caj)، جبکہ چیک (Czech) میں Caj لکھ کر چا۔اے بولاجاتا ہے۔ اسی طرح پڑوسی ملک سلوواکیا کی زبان Slovakian میں یہ نام چائے ہی ہے اور caj لکھا جاتا ہے، بالکل اسی طرح ایک اور زبان Slovenianکا معاملہ بھی ہے۔ جارجیا کی زبان جارجیائی (Georgian) میں ’چائے‘ ہے ، جبکہ جارجیا سے آزادی کا اعلان کرنے والی مسلم ریاست، ابخازیہ کی زبان، ابخازی (Abkhazian) میں اَچائے (Acai) کہتے ہیں۔ جاپانی زبان میں چائے کو O-cha کہتے ہیں یعنی محترمہ چائے۔ رُوسی زبان میں چائے ہی ہے، ہمسایہ زبانUkrainian میں بھی املاء کے فرق سے قطع نظر chaj چائے ہے، جبکہ سربیا کی زبان (Serbian) میں caj لکھا اور چائے پڑھا بولا جاتا ہے۔ (Romanian) میں ceai ہے جو غالباً چی اے بولا جاتا ہوگا۔ افریقہ کی بڑی زبان سُواحلی میں چائے کو ’چا۔اِی‘ کہتے ہیں۔ Wolof زبان میں چائے کو achai یعنی اَچئی (uh-chuy)کہتے ہیں۔
جنوبی ویت نام میں چائے کو che کہتے ہیں، جبکہ شمالی ویت نام کی زبان میں اسے tra اور کبھی کبھار cha۔یا۔ja بھی کہا جاتا ہے۔ افریقہ کی زبان، اکولی (Acoli/Acholi) میں سائے یا چائے (عربی کے ’صائے‘ سے مماثل) افریقہ کی زبان، اَفار میں شا۔ہی( Shaahi) اور افریقی زبان ایمہیرِک (Amharic) میں شائی (Shayi) عربی میں ’شائے‘ کہتے ہیں، اور کبھی ’صائے‘ بھی کہتے تھے (حوالہ : فرہنگ ِ آصفیہ)، لیکن ساٹھ (60) سے زائد زبانوں میں اس مشروب کے نام پر تحقیق کرنے والے، ایک ’ماہرِچائے‘ جناب لِن زے گُڈوِن [Lindsey Goodwin] کے بقول عربی میں ’چائے‘ بھی کہتے ہیں (ہمارے پاکستانی انگریز، یہ نام لِنڈسے پڑھتے ہیں جو غلط ہے) ;یہاں خاکسار اپنی ذاتی معلومات کے مطابق عرض کرتا ہے کہ بحرین اور خلیج فارس کے علاقے میں ’چ‘ کا چلن عام ہے تو ممکن ہے کہ وہاں ’شائے‘ کی بجائے ’چائے‘ ہی کہا جاتا ہو۔ پُرتگِیز (Portuguese) میں چائے کا نام cha ہے لیکن برازیل میں اس کا تلفظ ’شا‘ ہے۔ افریقی زبان صومالی میں ’شآہ‘ ہے۔ تھائی زبان میں ’چاہ‘ ہے۔ کہیے کیسا؟ تبتی زبان میں چا اور جا (cha / ja) کہا جاتا ہے۔
افریقی زبان، الور (Alur) میں سائے (Cai)، یونانی میں یہ نام ’سائے‘ ہی ہے، مگر لکھتے ہیں:tsai، فلی پِینز کی زبان Tagalogمیں tsaa لکھ کر ’’سا‘‘ ہی بولتے ہیں۔ آسامی میں ’ساہ‘(Sah) کہا جاتا ہے۔
انگریزی کی طرح، تَمِل میں بھی ٹی ہے، جبکہ افریقی زبان، افریکانس (Afrikaans ) میں ٹِی ای (Tee) کہا جاتا ہے، یورپی زبان باسک (Basque) میں بھی Teaہی ہے، ہنگری کی زبان مگیار (Magyar/Hungarian) میں Teaہے لیکن اس کی جمع Teakبولی جاتی ہے، المانوی یعنی German میں اسے Articleکے ساتھ der Tee کہا جاتا ہے اور یہ اِسم مذکر ہے۔ آئرش یا گیلک (Gaelic) میں انگریزی کے Slang (یعنی تحتی یا ذیلی بولی ;عوامی، مگر غیرمعیاری بولی) لفظ cuppa tay (cup of tea) کو اپناتے ہوئے cupan tea کہا جانے لگا، ویسے اُن کے اپنے Slang میں وہی چینی لفظ ’چا‘ بولا جاتا ہے۔
عبرانی زبان (Hebrew) میں چائے کو teh کہتے ہیں، اس کی بہن Yiddishمیں tey کہا جاتا ہے، جبکہ افریقی زبان، اَکان میں ٹِی۔یا۔تِی( Tii)۔ اَچے، شمالی سُماٹرا (انڈونیشیا) کی زبان بھسا اَچیہ۔یا۔بسااَچیہ (Acehnese) میں: تے (Te)، جبکہ فرینچ میں کہتے تو ’تے ‘ ہیں مگر Article کے ساتھ یعنی Le té (لو ۔تے) اور یہ اسم مذکر ہے۔ اسی طرح آرٹیکل کی پابندی کے ساتھ ہسپانوی (Spanish) میں el té بولاجاتا ہے۔ یورپی زبان Catalan میں Téکہتے ہیں (Valenciaیعنی بلنسیہ، اسپین میں اسی زبان کو Valencian کہتے ہیں)، Galician زبان میں té ہے اورڈینش میں بھی Teہے، ہیتی کی مخلوط بولی یعنی Haitian Creole میں téہی ہے۔ مالٹی یعنی Maltese زبان میںte ہے، ناروے کی زبان ناروی ین (Norwegian) میںte،ّ آرمیِنی میں ’تَے‘(T’ey)، آئس لینڈ کی زبان آئس لینڈِک میں te، سوئیڈن کی زبان Swedish میں te ہے۔ Welsh میں بھی te۔ انڈونیشیا کی زبان ’بہاساانڈونیشیا‘ (Bahasa Indonesia) میں teh، ملائی (Malay) زبان میں بھی یہی نام ہے، جبکہ ولندیزی (Dutch) میں thee، فِن لینڈ کی زبان فِینش (Finnish) میں tee، جبکہ مصنوعی زبان اسپرانتو ( Esperanto) میں کہا جاتا ہے: teo۔ لیٹوِیا کی زبان Latvian میں teja لکھتے اور ’تے یا‘ (tay-ya) پڑھتے ہیں۔ لکسمبرگ کی زبان Luxembourgish میں Téi کہتے ہیں اور جرمن کی طرح اسماء capitalized لکھے جاتے ہیں۔ سنہالی زبان میں thé کا مطلب ہے چائے۔ افریقی زبان زُولُو (Zulu) میں چائے کو itiyeکہا جاتا ہے۔ چین کے ہمسایہ (دوسرے چین یعنی تائیوان) کی زبان، تائیوانی (یعنی تائیوان کی چینی) میں چائے کو de کہا جاتا ہے۔
اس فہرست میں بیلا رُوسی زبان ( Belarusian) سب سے جُدا ہے جس میںچائے کو’ ہرباتو‘ (harbatu) کہتے ہیں۔ اُن کے مماثل نام ، پولستانی (Polish) میں herbata اور لیتھوانیا کی زبان Lithuanian میں ہے: arbata۔
آخری بات: چائے کو کسی بھی نام سے پکاریں، وہ چائے ہی رہے گی!