ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت، توقعات اور چیلنجز

یہ چین امریکا تعلقات کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لیے بھی نتیجہ خیز ثابت ہوگا

آج سے امریکا نئے دور میں داخل ہوگیا ہے، دنیا سے بہتر تعلقات بناؤں گا، ہمارے لیے سب سے پہلے اپنا ملک ہے، غیرقانونی تارکین وطن کو واپس بھیجیں گے۔ ان خیالات کا اظہار امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر تجارت میں اصلاحات کا آغاز کریں گے اور وہ تمام محصولات جمع کرنے کے لیے ’ ایکسٹرنل ریونیو سروس‘ کا قیام عمل میں لائیں گے۔ اب یہ آمدنی ’غیر ملکی ذرایع‘ سے آئے گی۔

 ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد جن خیالات کا اظہارکیا ہے وہ یقیناً ان کی حکومت کی پالیسی کا آئینہ دار ہے، ان کی پالیسیاں آنے والے دنوں میں عالمی سیاست کا نیا رخ متعین کریں گے، وہ بارود کی جنگ کے خلاف ہیں لیکن ٹریڈ وار کے بہت بڑے حامی ہیں۔اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی حکمرانی میں امریکا اپنے اتحادیوں، مخالفین اور حریفوں سے کیسے ڈیل کرتا ہے۔

امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کا مستقبل کیسا رہے گا، یہ بھی اسٹرٹیجک اعتبار سے اہمیت کا حامل ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع شخصیت کے پیش نظر چین اور امریکا کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔کیا پتا وہ دونوں ممالک میں کشیدگی میں مزید اضافہ کردیں، یہ اب ان کے طرزِ عمل پر منحصر ہے کہ وہ معاملات کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔

 امریکی صدر ٹرمپ کے پچھلے دورِ صدارت میں یہ شکایت عام رہی کہ وہ من مانی سے معاملات آگے بڑھانے کے عادی ہیں مگر اب ان کی سنجیدگی اور بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کے تجربات سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔

موجودہ حالات میں امریکی صدارت کی مسند پھولوں کی سیج ثابت نہ ہو گی کیونکہ ڈیموکریٹ حکومت جو ورثہ دے کر جا رہی ہے اس میں بہت سے پیچیدہ مسائل ہیں، جیسے مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال، اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر حملے، یوکرین جنگ اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار عالمی تجارت۔ گزشتہ دورِ حکومت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر اقتصادی پابندیوں، ایران سے جوہری معاہدے کے خاتمے اور ماحولیاتی تحفظ کے پیرس معاہدے سے باہر نکلنے کے اقدامات سے دنیا کو نئے امتحانات سے دوچارکردیا تھا، اس لیے اب مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی ایشیا بالخصوص چین اور ایران سے متعلق صدر ٹرمپ کیا رویہ اپناتے ہیں، یہ ایک بڑا اہم سوال ہے۔

 ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میںکاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔

ان کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دباؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کوکم کرنا ہے، وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوارکی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔ ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیارکرنا چاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی تحفظ پسندی میں واشنگٹن کس حد تک جائے گا، یہ چین امریکا تعلقات کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لیے بھی نتیجہ خیز ثابت ہوگا، تاہم بڑے تجارتی شراکت دار خاص طور پر چین پہلے ہی اس حوالے سے سرگرم ہیں کہ اپنی حکمت عملیوں کو ٹرمپ سے کیسے محفوظ بنایا جائے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکمرانی میں آنے والا وقت طے کرے گا کہ یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں کے نتائج کیا ہوں گے۔

یوکرین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پالیسیز میں تبدیلی کے بیانات پہلے ہی یورپی حکومتوں کو بے چین کررہے ہیں، وہ اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یوکرین جنگ ’’ ایک دن‘‘ میں ختم کرا سکتے ہیں، توقع کی جارہی ہے کہ ٹرمپ یوکرین کو روس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے مجبورکریں گے، اگرچہ انھوں نے مسئلہ حل کرنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے مذاکرات سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جس سے روس کو فائدہ ہو اور یوکرین کو اپنی کچھ زمین سے دستبردار ہونا پڑے۔ڈونلڈ ٹرمپ یہ بھی متعدد بارکہہ چکے ہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو شام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن شام میں حکومت کی تبدیلی کے پیچیدہ علاقائی اثرات کے پیش نظر وہ کیسے امریکا کو اس معاملے سے دور رکھ پائیں گے، یہ دیکھنا اہم ہوگا۔

پاکستان کے حوالے سے یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ نئے امریکی صدرکی پالیسیوں کے پاکستان پرکیا اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔

1980 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکا کا اتحادی بنا اور اسی بناء پر دنیا کی سب سے بڑی معاشی و سیاسی قوت کسی نہ حد تک پاکستان پر بھی اثرانداز ہوتی رہی۔ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد بظاہر امریکا مخالف نظریات کا پرچارکرتی ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم کا حصول ہو یا مستقل رہائش، نوجوانوں کی ترجیحات کی فہرست میں امریکا سرِفہرست ہے۔ امریکا میں ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ پاکستانی مقیم ہیں جن کی بھیجی گئی رقوم، پاکستان کی سالانہ ترسیلاتِ زرکا ایک تہائی ہیں۔

 امریکا پاکستان کا کلیدی تجارتی شرکت دار بھی ہے جس کے ساتھ اس کے گہرے اقتصادی تعلقات ہیں جب کہ پاکستان کے مختلف شعبوں میں درجنوں امریکی کمپنیز فعال ہیں۔ مالی سال 2024میں پاک امریکا تجارت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان کی امریکا کو برآمدات تقریباً 8 ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہیں جن میں ٹیکسٹائل اورگارمنٹس کا بڑا حصہ ہے۔

یہ برآمدی محصولات میں نمایاں اضافے کا عکاس ہیں، اگرچہ اس عرصے کی مجموعی درآمدات کے حوالے سے جامع ڈیٹا دستیاب نہیں لیکن درآمدات عموماً برآمدات سے کم ہی رہتی ہیں۔ امریکا سے درآمدات میں مشینری، الیکٹرانکس اور زرعی اشیاء شامل ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اپنی اہم صنعتوں کے لیے امریکی ٹیکنالوجی اور آلات پر انحصارکر رہا ہے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں بشمول امیگریشن پالیسیوں کے پاکستان کی سیکیورٹی، تجارت اور معیشت پر براہِ راست اثرات مرتب ہوں گے۔

 پاکستان کو چین اور امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو کسی کیمپ کا حصہ نہیں بننا چاہیے، ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا ہو گا کہ ہم چین کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ امریکا پہلے ہی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان پہلے ہی سے چینی کیمپ میں ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور چین کو بھی بحرِ ہند تک رسائی کے لیے پاکستان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے، تاہم پاکستان کو امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کسی بھی صورت کم نہیں کرنے چاہیئیں کیونکہ امریکا پاکستان کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

چیلنجزکا سامنا کرنے کے لیے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دنیا میں جو بھی ملک سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے لحاظ سے مضبوط ہوگا تو دنیا اسے اپنے قریب آنے دے گی۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ملکی معاملات کو بہتر بنائیں تاکہ باعزت طریقے سے ٹرمپ کے دور میں تعلقات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔

موجودہ حالات میں پاکستان کو ایک مستحکم اور بتدریج بہتر نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے،کیونکہ ایک مضبوط پاکستان نہ صرف چین اور امریکا کے ساتھ اچھے امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے بہت زیادہ پوٹینشل موجود ہے، اگر پاکستان اگلے 10 سال میں تجارت کو 30 بلین ڈالر تک لے جاتا ہے تو اس کا مطلب امریکا کے ساتھ بالکل مختلف تعلقات ہوں گے۔

امید ہے کہ امریکا کی نئی انتظامیہ امن کو ترجیح دے گی اور عالمی تنازعات کو ختم کرنے میں مدد کرے گی۔گزشتہ چار برس میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سمیت بہت سے معاملات میں پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، یہ صورتحال ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح امن، بقائے باہمی، برابری اور عالمی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

Load Next Story