ہم کب تک ڈوبتے رہیں گے؟

دنیا کی ہر نعمت پاکستان میںموجود ہے لیکن اگر نہیں ہے تو امن نہیں ہے۔


اطہر قادر حسن January 22, 2025

گزشتہ ہفتہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ گزارنے موقع ملا ،دو دن کی سرکاری مصروفیات کے بعد ہم تھے اور یورپ کے یخ بستہ دن اور ہڈیوں میں اترتی سرد ترین راتیں تھیں ، رات کو باہر نکلنے کا تو تصور ہی محال تھا کہ سر شام ہی شہر کی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں البتہ مختلف شہروں کے مرکزمیں ریستوران اور مے خانے آباد رہتے ہیں جہاں پر مقامی اور غیر ملکی باشندے سردی سے نڈھال جسم کو حرارت پہنچانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

ہمارا پہلا پڑاؤ پیرس تھا، جنوری کی ایک سرد شام کو چار سال کی طویل مدت کے بعد پی آئی اے کی پہلی پروازنے پیرس کے چارلس ڈیگال ائر پورٹ پر لینڈ کیا تودرجہ حرارت منفی تھا البتہ ائر پورٹ ٹرمینل پر درجہ حرارت انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق مناسب ہوتا ہے ، ائر پورٹ پر پیرس میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی قومی ائر لائن کی پہلی پرواز کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ ایک مختصر سی تقریب بھی ائر پورٹ پر منعقد کی گئی جس میں پی آئی اے کے اعلیٰ حکام ، فرانسیسی سفارت کاروں اورپاکستانی سفارت خانے کے نمایندے شریک تھے۔

پاکستانی سفارت خانے میں تعینات پریس اتاشی محترمہ سجیلہ صاحبہ سے ایک طویل مدت کے بعد ملاقات بھی ہوئی جنھوں نے پیرس میں مقیم پاکستانی صحافیوں کو موقع کی مناسبت سے ائر پورٹ پر جمع کر رکھا تھا ۔ پیرس میں مقیم پاکستانیوںکی اپنے آبائی وطن اور قومی ائر لائن کے لیے ان کی گفتگو جذباتی تو تھی ہی لیکن وہ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ملکی حالات سے پریشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔ پی آئی اے سے ان کی جذباتی وابستگی ہے۔ وہ پی آئی اے کو چھوٹا پاکستان قرار دیتے ہیں ۔ ملک ارشد جو پیرس میں کاروبار کرتے ہیں، ان کہنا تھا کہ پی آئی اے کے طیار ے میں داخل ہوتے ہی ان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔

پیرس کی مشہور و معروف شاہراہ شانزے لیزے ہو یا دیو ہیکل ایفل ٹاور ہر جگہ سردی اپنا رنگ خوب جما رہی تھی سرکاری مصروفیات میں پیرس کے دو دن جیسے تیسے سردی کا مقابلہ کرتے گزار گئے اورہم جو پیرس کے حسن کے اسیر تھے، وہ لیونارڈ و ڈاونچی کی شہرہ آفاق پینٹنگ مونا لیزا کو دیکھے بغیر ہی پیرس سے رخصت پر مجبور ہو گئے۔ہمارا اگلا پڑاؤ ہالینڈ تھا، ہمارے میزبان میاں عاصم پیرس پہنچے ہوئے تھے ۔ پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ہالینڈ پہنچے، وہاںبھی سردی اپنے جوبن پر تھی۔

ایمسٹرڈیم کے مرکز میں چہل قدمی کو دل مچلا تو ہمارے بڑے بھائی مشاہد نے فوراً حامی بھر لی ۔ گاڑی سے اترتے ہی محسوس ہوا کہ سردیوں میں یورپ کا سفر ایک غلطی ہے جو ہم سے سرزد ہو چکی ہے، تھوڑی دیر تو اپنے آپ پر جبر کر کے میزبان کے سامنے بہادری کا مظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد سردی کی شدت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور واپس ہوٹل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ ارادہ تو چند روز تک مہمان نوازی کے لطف اٹھانے کا تھا لیکن ایک طرف سردی اور دوسری طرف دیرینہ دوست عامر جاوید کی اسپین سے کال آگئی کہ ملاقات ضروری ہے اور بتایا کہ میڈرڈ میں سردی نسبتاً کم ہے ۔

ایمسٹرڈیم کا ائر پورٹ دنیا کے چند بڑے ائر پورٹس میں شامل ہے اور ائر پورٹ کے اندر ایک جہاں آباد ہے، اپنی مطلوبہ پرواز تک پہنچنے کے لیے ائر پورٹ کے اندر طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے ۔ ڈھائی گھنٹے کی فضائی مسافت کے بعد میڈرڈ پہنچ گئے، یہ ائر پورٹ بھی بہت بڑا ہے، یورپ کے ائر پورٹس اور یہاں پر اترے والی پروازوں کی تعداد دیکھ کر رشک آتا ہے اور بے اختیار دل مچلتا ہے کہ کیا کبھی ہمارے ملک میں بھی اتنی تعداد میں لوگ فضائی سفر کریں گے ؟ پاکستان کے پاس کیا کچھ نہیں ہے، چار موسم ہیں، سر سبز و شاداب اور دنیا کی بلند وبالاپہاڑ ی چوٹیاں ہیں، ریگستان ہیں، دریا ہیں ، نیلگوں سمندر ہے ، میدان ہیں، تاریخ ہے، مسحور کن نظارے ہیں ، دنیا کی ہر نعمت پاکستان میںموجود ہے لیکن اگر نہیں ہے تو امن نہیں ہے۔

سیکیورٹی خدشات ہیں جو سیاحوں کی آمدورفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں،دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ جنت نظیر پاکستان کو کس کی نظر لگ گئی ہے ۔ اسپین میں ہی تارکین وطن پاکستانیوں کی ایک اور کشتی کو حادثے کی خبر مل گئی ۔

چند ایک دوستوں سے اس سانحہ کے متعلق معلوم کیا تو انھوں نے ایک عینی شاہد سے بات کرادی جس کا کہنا تھا کہ کشتی میں زیادہ تر پاکستانی سوار تھے جو روزگار کے سلسلے میں غیر قانونی طریقے سے یورپ کے لیے روانہ ہوئے تھے لیکن پاکستانی ایجنٹوں نے انھیں مقامی لوگوں کے حوالے کر دیااور بقول اس عینی شاہد کے کہ دوران سفر جو بھی بیمار ہوتا تھا، یہ بے رحم لوگ اس کو کشتی سے سمندر میں پھینک دیتے تھے۔ وہ عینی شاہد خود بھی کشتی ڈوبنے کے بعد مچھیروں کی مہربانی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

ایک انسان کتنا بے رحم ہو سکتا ہے، اس کی کئی مثالیں ہماری تاریخ میں بھری پڑی ہیں، ان جوان بیٹوں کو کتنی دعاؤں اور منتوں کے بعد روزگار کے پر خطر راستے پر روانہ کیا گیا ہوگااور پاکستان میں ان کے والدین ان کی خیریت کے منتظر ہوں گے۔آئے روز کے یہ جان بلب حادثے نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست پاکستان اپنے نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکام ہو چکی ہے اور گزشتہ چند برسوں میں لاکھوں لوگ روزگار کے لیے بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔

 ان میں سے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو قانونی طریقے سے یہ سفر کرنے میں کامیاب رہے لیکن کم وسیلہ افراد کے لیے غیر قانونی راستہ ہی باقی رہ گیا ہے اورروزگار کے لیے وہ اپنے آپ کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں ، چند ایک خوش قسمت ان میں سے بچ جاتے ہیں اور زیادہ تعداد ڈوب جاتی ہے ۔ ہماری حکومتیں کب تک اپنے پاکستانی نوجوانوں کو ڈبوتے دیکھتے رہیں گی اور ملک میں ہی ان کو باعزت روزگار فراہم کر سکیں گی؟ خدا جانے ہمارے ڈوبنے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں