اسلام آباد:
صدر ٹرمپ کی جانب سے مہاجرین پروگرام کی معطلی نئی امریکی انتظامیہ کیساتھ پاکستان کے روابط کیلیے امتحان بن گئی۔
رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کے ریفوجی پروگرام کے تحت 25 ہزار سے زائد افغان امریکا آباد کیے جانا تھے، جوکہ واشنگٹن کی درخواست پر عارضی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں۔
ان کی اکثریت امریکی فوج یا اس کے کنٹریکٹرز کیلئے کام کرتی تھی،2021 میں طالبان کی واپسی کے بعد ملک چھوڑنے والے یہ افغان چند ماہ میں امریکا منتقل کئے جانا تھے، ساڑھے تین سال بعد بھی ان کی منتقل کا عمل شروع نہیں ہوا۔
ذرائع کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے یقینی دہائی کرائی تھی کہ یہ افغان مختلف طریقوں سے امریکا آباد کئے جائیگے۔
پناہ گزینوں کے امریکی وکیل نے بتایا کہ امریکی فوج کیلئے کام کرنیوالے1660 افغانوں کو اہلخانہ سمیت منتقلی کی کلیئرنس مل چکی تھی، ریفوجی پروگرام کی معطلی کے بعد ان کی فلائٹس منسوخ ہو گئیں۔
نیوز ایجنسی کے مطابق افغان انخلا گروپ کے سابق امریکی فوجی افسر نے بتایا کہ جن افغانوں کی فلائٹس منسوخ ہوئیں، ان میں اہلخانہ کے پاس جانے کے منتظر بچے اور ایسے افغان شامل ہیں جنہیں امریکا کیساتھ تعاون پرطالبان انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے فیصلے سے ہزاروں افغان مشکل میں پڑ گئے ہیں جن کی آبادکاری منظور ہو چکی تھی۔
نیوز ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس اور امریکی دفتر خارجہ نے رابطے پر ریفوجی پروگرام پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، پاکستان نے بھی تاحال باضابطہ ردعمل نہیں دیا۔
وزارت خارجہ کے ایک افسر نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کے چارج لینے کے بعد ریفوجی پروگرام کے جائزے کا ہمیں اندازہ تھا، ٹرمپ کے حلف سے قبل اس پر وزارت خارجہ میں اجلاس بھی ہوا، تاہم نئی پیش رفت حیران کن ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان امریکی حکام پر افغانوں کی منتقل کا عمل تیز کرنے زور دیتا رہا ہے، ان کی پاکستان میں موجودگی بھی باعث تشویش ہے کیونکہ وہ عام شہری نہیں، امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے تربیت یافتہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پاکستان نے 2023 میں غیر قانونی افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، واشنگٹن نے اسلام آباد سے رابطہ کرکے امریکا منتقلی کے اہل افغانوں کو رعایت دینے کی درخواست کی جس پر ہم نے منتقلی عمل جلد مکمل کرنے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اس مسئلے کو تسلیم کرتی تھی۔