پانی کی عدم فراہمی اسٹیل ملز کو کروڑوں روپے کا پیداواری نقصان

بیشتر کارخانے بند،صرف بلاسٹ فرنس اور کوک اوون بیٹری کو محدود پیمانے پر چلایا جارہا ہے، میجرجنرل ظہیر احمد


Business Reporter July 25, 2014
وزارت پانی و بجلی نے بھی کے الیکٹرک کے سامنے بے بسی ظاہرکی، معاہدوں کی پاسداری نہیں کی جارہی،اعلیٰ حکام سے رابطے بھی بے سود رہے،سی ای او،ہنگامی پریس کانفرنس۔ فوٹو: فائل

پاکستان اسٹیل کو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کروڑوں روپے کے پیداواری نقصان کا سامنا ہے۔

پاکستان اسٹیل کے پاس پانی کے ذخائر 110 ملین کی ضرورت کے بجائے صرف 11ملین گیلن تک کم ہوچکے ہیں جس کے سبب پاکستان اسٹیل کے بیشتر کارخانے بند کردیے گئے ہیں۔ صرف بلاسٹ فرنس اور کوک اوون بیٹری کو محدود پیمانے پر چلایا جارہا ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کے ذمے داری واٹر بورڈ اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ہیں۔ پانی کی 110ملین گیلن کی اسٹریٹجک سطح بحال نہ ہوئی تو جولائی میں پیداواری سرگرمیاں 20فیصد تک بڑھانے کا ہدف مشکل ہوگا۔

پاکستان اسٹیل کے سی ای او میجر جنرل ریٹائرڈ ظہیر احمد خان نے گزشتہ روز پاکستان اسٹیل کے ایف ٹی سی میں واقع دفتر میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے گھاروپمنگ اسٹیشن پر مسلسل لوڈ شیڈنگ اور گرڈ اسٹیشن کے بار بار ٹرپ ہونے سے پاکستان اسٹیل اور پاکستان اسٹیل کی رہائشی بستیوں کو پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور بریک ڈائون کی وجہ سے بھاری مالیت کی مشینری اور موٹریں جل گئیں جبکہ پانی کی پائپ لائنیں بھی پھٹ گئیں جن سے پیداواری عمل کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے اس مسئلے کی جانب کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کی توجہ بارہا مبذول کروائی لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ اسی طرح وفاقی وزارت واٹر اینڈ پاور نے بھی کے الیکٹرک کے سامنے اپنی بے بسی ظاہر کردی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کمشنر کراچی کی وساطت سے کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے ساتھ کئی ملاقاتیں کرچکی ہے لیکن صورتحال جوں کی توں برقرار ہے جبکہ کے الیکٹرک کی اعلیٰ انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی تمام کوششیں بھی بے سود ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کے ساتھ پاکستان اسٹیل کا معاہدہ موجود ہے جس کے تحت واٹر بورڈ پاکستان اسٹیل کو یومیہ 22 ملین گیلن پانی فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن واٹر بورڈ کی جانب سے اس معاہدے کی بھی پاسداری نہیں کی جارہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔