صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو 2 ریاستوں نے چیلنج کر دیا
نیو جرسی اور ایریزونا کے اٹارنی جنرلز نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔
نئے امریکی صدر ٹرمپ نے حلف اٹھاتے ہی سابق صدر بائیڈن کے کئی احکامات اور اقدامات ہوا میں اڑا دیے۔
امریکی ریاستوں اور شہری حقوق کے گروپوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط شدہ نئے ایگزیکٹو آرڈرز کے خلاف پہلا مقدمہ دائر کردیا ہے۔
اس حوالے سے نیو جرسی کے اٹارنی جنرل میتھیو پلیٹکن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پیدائشی شہریت کا حق واپس لینے کے حکم کو عدالت میں چیلنج کرنے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی صدر کو بادشاہت کی طرز پر ملکی معاملات چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے، پیدائشی شہریت کا حق اس ملک کے بانیوں نے دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نیو جرسی کا کہنا تھا کہ امریکا کا آئین ملک میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کو شہریت کا حق دیتا ہے، امریکا میں ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی طرح امیگرینٹ کی نسل سے ہے۔
میتھیو پلیٹکن نے کہا کہ اب امریکا میں قانون کی بالادستی کیلئے کھڑا ہونے کا وقت آگیا ہے، یہ ہماری سیاسی لڑائی نہیں بلکہ قانون کی بالادستی کیلیے کی جانے والی لڑائی ہے۔
واضح رہے کہ 18ریاستوں کے ایک اتحاد نے بوسٹن کی وفاقی عدالت میں منگل کو ایک مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ریپبلکن صدر کا پیدائشی شہریت کو ختم کرنے کا اقدام امریکی آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ مقدمہ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے کے چند گھنٹے بعد دائر کیا گیا تھا، یہ مقدمہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے ایجنڈے کے خلاف دائر ہونے والا پہلا بڑا قانونی چیلنج ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے بعد مزید مقدمات بھی متوقع ہیں، جن میں ٹرمپ کے دیگر اقدامات کو بھی چیلنج کیا جائے گا، جن میں ایلون مسک کی زیر قیادت مشاورتی گروپ جسے "محکمہ حکومتی کارکردگی” کہا گیا ہے، وفاقی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
علاوہ ازیں اٹارنی جنرل ایریزونا نے بھی صدر ٹرمپ کے مذکورہ حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اٹارنی جنرل ایریزونا کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو پیدائشی شہریت کا حق ختم کرنے کا اختیار نہیں، پیدائشی شہریت کا حق صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔