مجرموں کی بجائے مخالف سیاستدان نشانہ کیوں؟

عام آدمی تو یوسی چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا، اس لیے کرپشن اب سیاستدانوں کی مجبوری بن گئی

m_saeedarain@hotmail.com

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کو جیل میں قید نہیں بلکہ رہا ہونا چاہیے، میں معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا داعی ہوں۔ عوام کا اعتماد بحال ہونے سے ہی ملک میں جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے مگر ملک میں جو دو انتخابات ہوئے ان پر عوام نے اعتماد نہیں کیا۔ مولانا نے سیاستدانوں کے جیل کی بجائے باہر رہنے کی جو بات کی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ سیاستدان فرشتے ہیں انھیں سب کچھ کرنے کی اجازت ہے انھیں پکڑ کر جیل میں بند نہیں کرنا چاہیے اور گرفتار سیاستدانوں کو جیلوں سے رہا کر دینا چاہیے خواہ انھوں نے کوئی جرم بھی کیا ہو۔ملک و قوم سے مخلص اور کرپشن سے دور رہنے اور سیاست میں سیاسی و مالی فائدے نہ اٹھانے والے سیاستدان عنقا ہو چکے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے سیاستدان اب ملک میں برائے نام ہی ہوں گے جو اپنی جائیدادیں فروخت کر کے صرف عوام کی خدمت کے لیے سیاست کیا کرتے تھے۔

اب تو سیاست میں اپنے خاندان کی سیاسی میراث آگے بڑھانے اور سیاسی و مالی مفادات اور جائیدادیں بنانے اور بڑھانے کے لیے سیاست میں آیا جاتا ہے۔ ملک میں اب انتخابی سیاست بھی پہلے جیسی نہیں رہی جب سیاستدانوں کو کسی لالچ یا مفاد کے بغیر منتخب کیا جاتا تھا۔ سیاستدانوں کو ووٹ خریدنے پڑتے تھے نہ انتخابی مہم پرکروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے تھے اور لوگ عوام کی خدمت کے لیے ان سیاستدانوں کی الیکشن مہم میں کسی مفاد و لالچ کے بغیر اپنی جیب سے بھی رقم خرچ کرتے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ الیکشن لڑنا پہلے اتنا مشکل نہیں تھا جتنا پانچ عشروں سے ہو چکا ہے اور ملک کا انتخابی نظام ہی کرپٹ ہو چکا ہے تو انتخابات لڑنے والے سیاستدان کیسے محفوظ رہ سکتے تھے، انھوں نے بھی کرپٹ انتخابی نظام کو قبول کر لیا کیونکہ یہ ان کی مجبوری بنا دی گئی تھی۔

موجودہ انتخابی نظام میں الیکشن لڑنے والوں کے لیے انتخابی اخراجات کی جو پابندی ہے اس رقم میں تو یوسی چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑا جا سکتا اور امیدواروں کو مقررہ حد سے زائد اخراجات کر کے ہی الیکشن لڑنا پڑتا ہے اور کامیاب ہونے والے کو الیکشن کمیشن میں جھوٹ پر مبنی تفصیلات فراہم کرنا پڑتی ہیں۔

الیکشن کمیشن ارکان اسمبلی سے ہر سال گوشوارے جمع کرانے کی ڈیڈ لائن دیتا ہے جس پر عمل نہ ہونے پر ان کی رکنیت معطل کر دی جاتی ہے جو اپنے جھوٹے سچے گوشوارے جمع کرا کر بحال کرا لی جاتی ہے۔ اس بار بھی 31 دسمبر تک گوشوارے جمع کرانے کی ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کے لیے ڈیڈ لائن مقرر تھی مگر 517 ارکان نے گوشوارے جمع نہیں کرائے اور 31 دسمبر تک چیئرمین سینیٹ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی گوشوارے جمع نہ کرانے والوں میں شامل ہیں۔ ہر سال جھوٹے و بے بنیاد گوشوارے جمع کرائے جاتے ہیں جو تسلیم کر لیے جاتے ہیں اور جھوٹے گوشواروں کی کوئی تحقیقات نہیں کرتا۔ اہم عہدوں پر رہنے والے گوشواروں میں لکھتے ہیں کہ ان کے پاس ذاتی گاڑی یا گھر نہیں ہے۔

وہ اپنی فیملی کی بھی بے بنیاد تفصیل فراہم کرتے ہیں اس لیییہی سے منتخب ارکان کی کرپشن شروع ہو جاتی ہے۔ 1989 میں مولانا فضل الرحمن میرے آبائی شہر شکارپور حاجی مولا بخش سومرو کی وفات پر تعزیت کے لیے الٰہی بخش سومرو کے گھر آئے تھے اور راقم کے سامنے دونوں کا کہنا تھا کہ اب الیکشن لڑنا آسان نہیں رہا اور ایک کروڑ روپے میں بھی قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا جاسکتا۔

36 سالوں میں مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی تو انتخابی اخراجات بھی پچاس کروڑ تک تو پہنچ ہی گئے ہوں گے۔ اتنے مہنگے الیکشن کروڑوں پتی امیدوار ہی لڑ سکتے ہیں۔ عام آدمی تو یوسی چیئرمین کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا، اس لیے کرپشن اب سیاستدانوں کی مجبوری بن گئی اور اکثر کے قریب الیکشن لڑنا کاروبار بن چکا ہے۔

کرپشن میں اٹے الیکشن اب سیاسی پارٹیوں کی بھی آمدنی کا ذریعہ ہیں اور پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے بھی پارٹی کو کروڑوں روپے عطیہ دینا پڑتا ہے مگر پھر بھی ٹکٹ ملنے کی گارنٹی نہیں ہوتی ۔ ہر بڑی پارٹی بڑی بڑی رقم لے کر اپنے انتخابی ٹکٹ جاری کرتی ہے اور پارٹی قائد اگر ان کی انتخابی مہم میں آئے تو اس کے جلسے کے اخراجات بھی امیدوار کے ذمے ہوتے ہیں۔

ایک لحاظ سے یہ درست ہے کہ کرپشن کے مبینہ الزامات پر سیاستدان کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے۔ ملک میں سینیٹروں کا انتخاب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جہاں بھی پارٹیاں رقم لے کر سینیٹ کا ٹکٹ دیتی ہیں اور ارکان اسمبلی پارٹی ٹکٹ کے برعکس اپنے ووٹ بھاری رقم کے عوض دیتے ہیں جن کے ووٹوں کا پتا بھی چل جاتا ہے مگر یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ہونے والوں نے اپنے انتخابی اخراجات بھی وصول کرنے ہوتے ہیں اور انھیں ہر حکومت غیر قانونی طور پر اربوں روپے ترقیاتی کاموں کے نام پر سیاسی رشوت بھی دیتی ہے اور حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے انتخابی اخراجات بمع سود وصول کر لیتے ہیں۔

انتقامی سیاست اور سیاسی مخالفین کو اپنی طرف سے چور ڈاکو قرار دے کر جیلوں میں ناحق قید کرانے والا آج خود جیل میں ہے ۔ حکومتوں کے اپنے مخالف سیاستدانوں پر مقدمات مذاق بن کر رہ گئے ہیں جن پر عوام بھی یقین نہیں کرتے اور حکومتیں بھی بدنام ہوتی ہیں۔ہر سیاسی پارٹی نے ایسے مقدمات بھگتے مگر کرپشن کے اصل مجرم بھی اپنے خلاف مقدمات تسلیم نہیں کرتے اور اسے سیاسی قرار دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن چھپتی کبھی نہیں مگر ثبوت نہیں ملتے اور ہر حکومت میں مجرموں کی بجائے مخالف سیاستدان ہی نشانہ بنتے آ رہے ہیں اور زیادہ بدنام صرف سیاستدانوں کو کیا جاتا ہے۔

Load Next Story