ایس سی سپریم کورٹ کو سمجھتا تھا لیکن یہ تو سیکٹر کمانڈر ہے، جسٹس اعجاز اسحاق

عمران خان کے جیل ٹرائل میں وکیل مشال یوسفزئی کو اجازت نہ دینے پر توہینِ عدالت کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت

شاید پارلیمنٹ انتہائی موزوں شخص ڈھونڈ رہی ہے اس لئے وقت لگ رہا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ فوٹو:فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا ہے کہ میرے پاس اب کوئی آپشن باقی نہیں ہے توہینِ عدالت کی کارروائی کرنی پڑے گی، میں ایس سی سپریم کورٹ کو سمجھتا تھا لیکن یہ تو سیکٹر کمانڈر ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے اڈیالہ جیل ٹرائل میں وکیل مشال یوسفزئی کو اجازت نہ دینے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کیس کی سماعت کی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے ٹرائل میں بہت سے وکلاء ہوتے ہیں، کوئی ایک رہ گیا ہو گا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ آپ کا یہ جواز غلط ہے کہ کوئی ایک آدھ وکیل رہ سکتا ہے، آپ 119 ملزمان کا ایک میجر ٹرائل جب وہاں کر رہے ہیں تو وکلاء تو آئیں گے، پچھلی بار بھی یہ عدالت توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے لگی تھی۔

عدالت نے کہا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ سپریٹنڈنٹ جیل اور پنجاب پولیس افسر کی ذاتی درخواست پر کارروائی نہیں کی گئی،

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میرے پاس اب کوئی آپشن باقی نہیں ہے توہینِ عدالت کی کارروائی کرنی پڑے گی۔

وکیل نے کہا کہ عدالت نے ایک لوکل کمیشن تشکیل دیا تھا وہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا، تبدیل کیا جائے، جیل کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، کمیشن کو کال کی تو انہوں نے جواب ہی نہیں دیا۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ اُن کو بھی فون آ گیا ہو گا، اب تو کمیشن سپریم کورٹ کے جج کو بھی لگا دیں تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اب تو سپریم کورٹ کا جج بھی وہ ذمہ داری پوری نہیں کر سکے گا، میں ایس سی سپریم کورٹ کو سمجھتا تھا لیکن یہ تو سیکٹر کمانڈر ہے،

چھٹی ساتویں یا آٹھویں توہینِ عدالت کی درخواست ہے آپ کر کیا رہے ہیں؟ جیل ٹرائل کا تو فیصلہ ہو چکا اس میں نہیں جاتے لیکن یہ طریقہ درست نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے اڈیالہ جیل حکام کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیدیا۔

Load Next Story