صحافیوں کی تنظیموں نے پیکا ایکٹ کو مسترد کردیا، واپس لینے کا مطالبہ

پیکا ایکٹ میں ترامیم صحافی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی جا رہی ہیں، جوائنٹ ایکشن کمیٹی


ویب ڈیسک January 23, 2025
فوٹو: فائل

اسلام آباد:

وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم پر صحافیوں کی تنظیموں کی مشترکہ ایکشن کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سے مسترد کردیا ہے اور مطالبہ کیا ہے اس ایکٹ کو واپس لیا جائے۔

پی ایف یو جے، اے پی این ایس، سی پی این ای، ایمینڈ اور پی بی اے پر مشتمل صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ اس بل کو مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ میں ترامیم صحافی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر کی جا رہی ہیں لہٰذا  اس بل کو فوراً واپس لیا جائے۔

قبل ازیں پی ایف یو جے نے ایک الگ بیان میں پیکا ایکٹ کو دھوکا قرار دیا تھا۔

پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور سیکریٹری جنرل ارشد انصاری نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کو غیر ضروری اور آئین کی روح کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ  ترامیم میڈیا، سوشل میڈیا اور صحافتی برادری کو دبانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ایف یو جے نے نئے پیکا ترمیمی بل کو دھوکا قرار دے دیا

بیان میں ترامیم کو پوری میڈیا انڈسٹری سے دھوکا قرار دیا گیا تھا اور پی ایف یو جے نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ کسی کے کہنے پر کیا گیا ہے اور آزادی صحافت اور اظہار رائے کے آئینی حق کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جائے گا۔

کراچی پریس کلب نے بیان میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ صحافی تنظیموں سے مشاورت کے بغیر کی گئیں ترامیم کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

صدر کراچی پریس کلب فاضل جمیلی اور سیکریٹری سہیل افضل خان نے پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں آزادی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کے آزادی اظہار کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کو دبانے کے بجائے، حکومت کو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو حقیقی وقت میں درست خبریں رپورٹ کرنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے اور اسی طرح سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

کراچی پریس کلب کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے یقین دہانی کرائی تھی کہ قانون منظورہونے سے قبل اس پر تمام اسٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کی جائے گی لیکن اس کے برعکس حکومت نے جلد بازی میں ان قوانین کو منظور کروالیا ہے اور اس کا مسودہ صحافی تنظیموں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کے حوالوں سے صحافی تنظیموں کو بھی تحفظات ہیں لیکن اس کے لیے قانون سازی میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔

کراچی پریس کلب نے حکومت کوتجویزدی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا باڈیز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے کسی بھی قانون کو متعارف کرانے یا نافذ کرنے سے پہلے مشاورت کرے اور اس "کالے قانون" کو فوری طور پر واپس لے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پریس کلب پیکاایکٹ ترمیمی بل پر شدید تحفظات رکھتا ہے اور اس حوالے سے دیگر صحافی تنظیموں سے مشاورت کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے پیکا ترمیمی ایکٹ میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا قوانین مزید سخت : پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور

ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا، اتھارٹی کو ممنوعہ یا فحش مواد تک رسائی اور ممنوعہ مواد شیئر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی ترامیم میں ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کی نئی تعریف کی گئی ہے اور مجوزہ تعریف میں سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر کا اضافہ کردیا گیا۔

پیکا ایکٹ کے سیکشن 2 میں ایک نئی شق کی تجویز ہے، مجوزہ ترمیم میں قانون میں بیان کردہ اصطلاحات کی تعریف شامل ہے، ’سوشل میڈیا تک رسائی کی اجازت دینے والے نظام کو چلانے والا کوئی بھی شخص‘ کو بھی نئی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔

ایکٹ کے تحت ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ بھی بل کے زیر نگرانی آگئے ہیں۔

ترامیم میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے سزاؤں کا تعین بھی کیا گیا ہے۔

مجوزہ ترامیم کے مطابق قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حذف مواد سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر کارروائی ہوگی، اسپیکرز و چیئرمین سینیٹ کی طرف سے حذف مواد نشر کرنے پر تین سال قید اور بیس لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا۔

قومی اسمبلی میں یہ بل ضمنی ایجنڈے میں لایا گیا اور وفاقی وزیر رانا تنویز نے پیش کیا اور کثرت رائے سے بل کی شق وار منظوری دی گئی۔

قومی اسمبلی میں جب پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل پیش کیا گیا تو صحافیوں نے احتجاج کی اور پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں