حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’جس نے ایک مومن کے دنیوی غموں میں سے ایک غم دور کر دیا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن کے غموں میں سے ایک غم دور کر دے گا۔ اور جس نے کسی تنگ حال مسلمان پر آسانی کی تو اﷲ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا۔‘‘ (مسلم شریف)
اس حدیث کا تعلق تو ہر مسلمان سے ہے چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو، لیکن موجودہ معاشرتی حالات کے پیش نظر معالج حضرات، دوائیاں بنانے والے ادارے اور پھر ان ادویہ کو فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹور ان سب حضرات کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند آداب اختیار کرنے بہت ضروری ہو چکے ہیں۔ ورنہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اسلامی اقدار تو ایک طرف اب تو انسانی قدریں بھی پامال ہوتی نظر آرہی ہیں۔
(1) اسلام نے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو اس میں خلوص ہونا ضروری ہے۔
(2) اس لیے معالج چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا حکیم، سرجن ہو یا فزیشن اس کے دل میں مریض کے لیے خیر خواہانہ جذبات ہونے چاہییں۔ دوا یا نسخہ یا مشورہ دیتے وقت کسی تساہل‘ غفلت یا جان چھڑانے والا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
(3) اپنی اجرت اور فیس وصول کرتے وقت مریض کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھا جائے، جیسا کہ آغاز میں ارشاد نبوی ﷺ ذکر کیا گیا ایسا نہ ہو کہ مریض مرض کی شدت میں ہو اور معالج کا ذہن اس بنیاد پر کام کر رہا ہو کہ اس سے کتنی دولت کما سکتا ہوں۔
(4) مریض کے مرض کی تشخیص کرنے کے بعد ایسا علاج تجویز کیا جائے جس میں بلا ضرورت تاخیر نہ ہو تاکہ محض مریض سے پیسے وصول کرنے کی خاطر علاج کو طویل کرنے کا طریقہ ختم ہو جائے۔
(5) اگر مریض کے مرض کے بارے میں یا تشخیص کے بارے میں معالج کا ذہن مطمین نہ ہو تو پھر وہ کسی اپنے سے بہتر معالج کے پاس بھیج دے۔ محض معاصرانہ چپقلش کی بناء پر مریض کی جان سے نہ کھیلے۔
(6) معالج کو چاہیے کہ اپنے شعبے کے جدید مطالعے کو تازہ رکھے۔ جدید حالات و تحقیقات اور دنیائے طب میں ہونے والے نت نئے انکشافات اور ایجادات سے باخبر رہے۔
(7) ایک مثالی مسلمان معالج وہ ہوتا ہے جو اپنے فرض سے بہ خوبی آگاہ ہو اور اس کے بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔
(8) سرکاری اسپتالوں کے معالجین قومی خزانوں سے تن خواہ لیتے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کی قطاریں معالج کے انتظار میں ہوتی ہیں اس تاخیر سے مریض کے دُکھ اور اذیّت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور معالج کے لیے رزق حلال کے حصول میں رکاوٹ بھی ہے۔
(9) بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ سرکاری معالج اسپتالوں میں مریض پر توجہ نہیں دیتے اور مختلف طریقوں سے اپنے پرائیویٹ کلینک میں آنے پر مجبور کرتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے یہ ظلم ہے، اس غیر انسانی حرکت سے وہ دنیا میں عیش و عشرت کا سامان کر لیتے ہوں گے لیکن اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔
(10) معالج کو مریض کا علاج کرتے وقت خوف خدا اور خشیت الٰہی دل میں رکھنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق جو انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے مشکل امور بھی آسان کر دیتے ہیں۔ لہٰذا شفاء دینے والا اﷲ اس معالج کے نسخے میں بھی شفاء عطا فرمائے گا۔
(11) مریض انتہائی دکھی انسان ہوتا ہے اور دکھی ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس ہوتا ہے۔ مرض انسان کو چڑچڑا بنا دیتا ہے اس کا لازمی نتیجا یہ ہوتا ہے کہ معالج کو مریض کی طرف سے ناگوار رویہ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اگر وہ اس سے جلد بازی میں اکتاہٹ کا اظہار کر دے تو وہ کام یاب معالج نہیں ہو سکتا۔ اگر مریض کے چڑچڑے پن کا جواب جھنجھلاہٹ سے دے گا تو گویا وہ معالج خود مریض ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق انسان کے بیان میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے‘ معالج اپنی شیریں بیانی اور حسن خلق سے مریض کا آدھا مرض ٹھیک کر سکتا ہے۔
(12) سورۂ حشر میں اﷲ تعالیٰ نے ایثار کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو خسارے میں رکھ کر دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے۔ ایک معالج کو اپنا آرام و راحت قربان کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ معالج کلینک یا اسپتال سے آیا ابھی آرام سے بیٹھا بھی نہ تھا کہ کسی فوری اور پیچیدہ کیس کی اطلاع آجاتی ہے یہ لمحہ معالج کے لیے انتہائی صبر آزما ہوتا ہے اور یہی ایثار کا موقع ہوتا ہے۔
(13) یہ اخلاقی تقاضے اور آداب اسلامی دوا ساز اداروں کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ ان اداروں کو بھی اخلاقی اقدار کا پاس کرنا چاہیے کہ وہ دوا سازی میں زیادہ منافع خوری سے اجتناب کریں اور مریض کے لیے ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق آسانی پیدا کریں۔
(14) دور حاضر کا انتہائی سنگین مسئلہ جعلی ادویہ بنانے کا ہے جس سے مریض پیسہ خرچ کرنے کے باوجود دکھ اور تکلیف سے نجات نہیں پاتا، یہاں تک کہ یہ ادویہ مریض کی موت کا ذریعہ بن جاتی ہیں لہٰذا ایسے دوا ساز اداروں کے ساتھ معالج کو بھی رابطہ نہیں رکھنا چاہیے، نہ ان کی ادویات لکھ کر دینی چاہییں۔
اگر کوئی جعلی ادویہ بناتا ہے تو پھر بنانے والا، بیچنے والا اور وہ معالج جو نسخہ تجویز کرتا ہے سب گناہ گار ہوتے ہیں۔ ایک مسئلہ جو آج شدت اخیتار کرتا جا رہا ہے وہ ہے معالج حضرات کا دوا ساز کمپنیوں سے کمیشن لینا، یہ انتہائی سفاکی کا مظہر ہے کہ کوئی معالج اپنی آمدن میں اضافے کے لیے دوا ساز اداروں سے کمیشن لے کر ان کی ایسی ادویات تجویز کرے جو مریض کے لیے ضروری نہیں ہیں، یہ خیانت ہے اور خائن سے نہ صرف لوگ نفرت کرتے ہیں بل کہ وہ اﷲ تعالی کے عتاب کا بھی مستحق ہوجاتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے اور اپنی دنیا بنانے کے دھوکے میں اپنی آخرت برباد نہیں کرنا چاہیے۔
اﷲ رب العزت ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے ایسا بنا دے کہ ہم سب ایک دوسرے کی تکالیف دور کرنے میں لگ جائیں اور پھر اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ہماری تکالیف کو بھی دور فرما دے۔ آمین