مستقل جنگ بندی کا نفاذ، ایک چیلنج

اب ٹرمپ کی خواہش ہے کہ کئی دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے


ایڈیٹوریل January 24, 2025

غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے اور غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے میں قتل و غارت ہدف بنا لیا۔ اسرائیلی فورسز نے مسلسل دوسرے روز مغربی کنارے کے شہر جینن میں آپریشن کیا، جاری آپریشن کے نتیجے میں دس فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یہودی آبادکاروں سے پابندیاں اٹھانے پر ردعمل میں کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے خلاف اشتعال انگیزی بڑھے گی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیل کی مستقل عمل داری کی تجویز کی کوشش کی تھی۔ جب کہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اب ٹرمپ کی خواہش ہے کہ کئی دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے، تاہم سعودیہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔

غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا ہے، لیکن اسرائیلی جارحانہ اقدامات کا سلسلہ نہ رکنے پر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پوری پاسداری کی جاتی رہے گی، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس بات کی یقین دہانی نہیں کرا سکتے کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ہم ایرانی گٹھ جوڑ کے خلاف منظم طریقے سے اور مضبوطی سے کارروائیاں کر رہے ہیں، وہ گٹھ جوڑ چاہے غزہ، لبنان، شام اوریجن ہو یا یہودیہ اور سامریہ میں ہو۔ یہودیہ اور سامریہ کی اصطلاحات اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ امن معاہدے پر اسرائیل کے انتہا پسند سخت مشتعل ہیں۔ انتہا پسندوں کے بقول مزاحمت کاروں سے معاہدہ، ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف بدترین پروپیگنڈے کے باوجود عالمی رائے عامہ اسرائیل کے بارے میں منفی ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی صیہونی تنظیم Anti-Defamation League یا ADLکے ایک عالمی جائزے میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے نصف کے قریب لوگ یہودی مخالف یا Antisemiticجذبات رکھتے ہیں۔

جائزے کے دوران 103 ممالک کے 58000 افراد سے رائے لی گئی اور نتیجے کے مطابق کرہ ارض کے چھیالیس فیصد لوگ اسرائیل کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں غزہ مزاحمت کاروں کی حمایت 59 فیصد اور 75 فیصد لوگ سام مخالف ہیں جب کہ فلسطین میں یہ تناسب 97 فیصد ہے۔ ایران میں سام مخالف جذبات نسبتاً کم ہیں اور صرف 49 فیصد خود کو Antisemitic  سمجھتے ہیں۔

دنیا بھر میں نسل کشی کے ذمے داروں کا تعاقب بھی جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے اٹلی کے دورے پر آئے اسرائیلی میجر جنرل غسان ایلین Ghassan Alianکی گرفتاری کے لیے عدالت کو درخواست دیدی گئی۔ گزشتہ ہفتے جب سابق امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن واشنگٹن کے مرکزِ دانش اٹلانٹک کونسل میں تقریر کرنے آئے تو وہاں موجود لوگوں نے غزہ نسل کشی بند کرو کے نعرے لگائے۔

پولیس نے ان لوگوں کو ہال سے باہر نکال دیا۔ دوسرے دن موصوف کی الوداعی پریس کانفرنس کے دوران کئی نامہ نگاروں نے غزہ میں صحافیوں کے قتل عام پر آواز اٹھائی۔ وزیرباتدبیر نے جان چھڑانے کے لیے کہا کہ امریکا آزادی اظہار پر یقین رکھتا ہے اور صحافیوں سے بدسلوکی کی ہر سطح پر مذمت کی جاچکی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کے بعد شورش زدہ علاقوں میں حماس کے اہلکار ملبے کی صفائی کی نگرانی کر رہے ہیں۔ عسکریت پسند تنظیم کے اسلحہ بردار اہلکار غزہ کی مٹی اور دھول سے اٹی سڑکوں پر امدادی قافلوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔

جنگ بندی کے لاگو ہونے کے بعد حماس کی انتظامیہ سیکیورٹی دوبارہ نافذ کرنے، لوٹ مار پر قابو پانے اور محصور علاقے کے کچھ حصوں میں بنیادی سروسز کی بحالی کے لیے فعال ہو گئی ہے۔ اسرائیل کے حماس کو تباہ کرنے کے اعلان کے باوجود تنظیم نے غزہ میں مضبوطی سے قدم جما رکھے ہیں اور اقتدار پر اس کی گرفت مستقل جنگ بندی کے نفاذ کے لیے ایک چیلنج کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے سے قبل تک اسرائیل کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی رہی ہے جس میں شرف انسانیت کی تمام اقدار پامال کی گئی ہیں۔

اس جنگ نے غزہ کا انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ کردیا۔ اسرائیلی کی وحشیانہ بمباری سے بستیاں ملیا میٹ، گھر، اسپتال، اسکولز اور کالجز کھنڈر بن گئے، غزہ سٹی، شمالی غزہ، خان یونس، رفاہ، جبالیہ، دیرالبلاح شدید متاثر ہوئے۔ غزہ میں 60 فیصد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا، 92 فیصد گھر تباہ ہوگئے، 88 فیصد اسکولز متاثر ہوئے، غزہ کے تمام اسپتال مکمل طور پر تباہ ہو گئے، صیہونی گولہ باری کے نتیجے میں فلسطین کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسرائیلی جارحیت میں 47 ہزار کے قریب فلسطینی جان سے گئے، ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد گولہ باری کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے، جن میں سے 15 ہزار زخمیوں کو طویل عرصے تک علاج کی ضرورت ہے۔

چھ دہائی قبل اقوام متحدہ نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل نکالا جو اگرچہ فلسطینیوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اسرائیل کے نام پر قطعی ناجائز ریاست ان کی سرزمین سے نکالی گئی تھی جب کہ اسرائیل نے اس معاہدے پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہ کیا اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر ارضِ فلسطین پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا جس پر فلسطینیوں نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور دوسرے فورمز کے ذریعے آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے اسرائیل کی جانب سے جو ننگ انسانیت حربے اختیار کیے جاتے رہے، وہ انسانی تاریخ کے بدترین مظالم کے زمرے میں آتے ہیں مگر فلسطینیوں کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔

انھی اسرائیلی مظالم پر اپنے ردعمل کے اظہار کے لیے فلسطینیوں کی عسکری تنظیم حماس نے پندرہ ماہ قبل 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر میزائل حملے کیے جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں پر باقاعدہ جنگ مسلط کردی جس میں امریکا اور اس کی حواری قوتوں نے باقاعدہ جنگی حربی امداد کے ذریعے اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کیے چنانچہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام میں کوئی کسر نہ چھوڑی، جب کہ فلسطینیوں کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے اور انھوں نے اپنی جرات و بہادری کی نئی مثالیں قائم کیں۔

 ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ جہاں صورت حال یہ رہی ہو کہ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی تھی وہاں یہ کیسے ممکن ہو گا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کر سکیں گے، یہ طے ہے کہ ٹرمپ کے نئے دور حکومت میں دوسرے بین الاقوامی تنازعات کا ’’اسٹیٹس کو‘‘ برقرار رہے گا۔ ان پر توجہ دینے کی ٹرمپ کو شاید فرصت نہ ملے۔

اسرائیلی مظالم کے خلاف مغربی دنیا سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمتی قراردادیں منظور کر کے جنگ بندی کے تقاضے کیے گئے مگر اسرائیل کی جنونیت کے آگے بند نہ باندھا جا سکا اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دینے کے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بھی اسرائیل کے جنونی ہاتھ نہ رک پائے۔

اب بادلِ نخواستہ امریکا بھی حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے پر آمادہ نظر آرہا ہے اور اسرائیل کے علاوہ حماس بھی اس معاہدے پر عملدرآمد پر رضا مند ہے جس پر مرحلہ وار عملدرآمد کا آغاز ہو چکا ہے تو اسے بہرصورت خطے میں امن و سلامتی کی ضمانت بننا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں