غزہ، ادھر آ ستم گر…

ہم مسلمان بہت جذباتی ہیں اور غلط کو غلط نہیں کہتے۔


عبد الحمید January 24, 2025
[email protected]

7اکتوبر 2023کو حماس جنگجوؤں نے ایک سر پرائز دیتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کر دیا،جس میں ایک ہزار سے کچھ اوپر اسرائیلی مارے گئے اور 300 کے قریب یرغمال بنا لیے گئے۔یہ حملہ اتنا اچانک اور اتنا شدید تھا کہ ساری دنیا دنگ رہ گئی۔اطلاعات کے مطابق حماس کے ملٹری ونگ نے اپنی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیریہ قدم اُٹھایا۔بظاہر یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی لیکن بربریت پر آمادہ اسرائیلی ریاست کے خون آشام جواب کو نظر میں نہ رکھ کر یہ قدم اٹھایا گیا۔

حملے کے فوراً بعد امریکا اور مغرب نے صیہونی ریاست کو ہر قسم کے مہلک اسلحے سے نہ صرف لیس کیا بلکہ ہر محاذ پر اس کی سیاسی اور سفارتی پشت پناہی شروع کر دی۔ابتدا میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اسرائیل ہوائی حملے کر کے اور میزائلوں کی بارش کر کے غزہ کی پٹی پر قیامت تو ڈھا سکتا ہے لیکن زمینی حملہ کرتے ہوئے جب آبادیوں کے اندر داخل ہو گا تو حماس جنگجو اس کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔

ایسا نہ ہو سکا اور اسرائیلی افواج غزہ  کی پٹی میں اپنی مرضی سے قتلِ عام کرتی اور تباہی پھیلاتی رہیں۔اسرائیل کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی اس لیے اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی کو ایک بڑے کھنڈر اور کھلی جیل میں تبدیل کر دیا۔

چند دن پہلے قطر انتظامیہ نے اعلان کیا کہ غزہ میں 16ماہ سے جاری اسرائیلی قتلِ عام کو بند کرنے کے لیے حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی شرائط طے پا گئی ہیں اور اتوار 19جنوری کی صبح سے سیز فائر عمل میں آ جائے گا۔اس خبر نے مسلم عوام اور خاص کر غزہ کے باسیوں کو مسرور کر دیا۔جنگ بندی کے اعلان کے ساتھ ہی غزہ میں زندگی لوٹ آئی۔لوگ واپس اپنے گھروں کو آنے لگے۔

انھوں نے سیز فائر کو روبہ عمل آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔سیز فائر شروع ہونے میں تین گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔حماس اسرائیلی یرغمالیوں کی لسٹ دینے میں تاخیر کر گیا۔حماس کے ایک ترجمان نے اس کا موجب ٹیکنیکل وجوہات کو ٹھہرایا لیکن ان تین گھنٹوں میں اسرائیل کو ایک آخری فضائی حملے کا بہانہ مل گیا جس سے 19فلسطینی مارے گئے اور کئی عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ ان 19جانوں کے جانے کی تمام تر ذمے داری حماس پر عائد ہوتی ہے۔

ہم مسلمان بہت جذباتی ہیں اور غلط کو غلط نہیں کہتے۔حماس کو اس شرط کا پہلے سے علم تھا۔15جنوری کو جس معاہدے پر دستخط ہوئے اس میں بھی یہ شرط تھی۔حماس کو علم تھا کہ پہلے دن سیز فائر شروع ہونے سے قبل 33 اسرائیلیوں کی لسٹ مہیا کرنی ہے،جس کے بعد ہی سیز فائر شروع ہو گا۔بہر حال لسٹ دینے میں تاخیر سے مزید 19افراد لقمہ ء اجل بن گئے۔

دونوں فریقوں کے درمیان قرار پایا ہے کہ ہر ایک اسرائیلی یرغمالی کے بدلے30 فلسطینی قیدی رہا کیے جائیںگے۔سیز فائر تین مرحلوں پر مشتمل ہوگا۔ ہر مرحلہ 42دنوں کا ہوگا ،اس دوران جنگ بند رکھی جائے گی اور قیدیوں/یرغمالیوں کا تبادلہ ہوگا۔حماس نے پہلے دن تین خواتین یرغمالیوں کو رہا کیا۔ معاہدے کے مطابق حماس نے پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالی رہا کرنے ہیں۔اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدی رہا کر دیے ۔اسرائیلی یرغمالی صحت مند اور ہشاش بشاش تھے جس سے پتہ چلتا تھا کہ ان کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے۔

اس کے مقابلے میں فلسطینی قیدی بمشکل جسم و جان کا رشتہ بحال رکھے ہوئے تھے۔وہ ظلم و بربریت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔دونوں جانب رہائی پانے والے واپس پہنچے تو بہت جذباتی مناظر تھے،مغربی میڈیا زیادہ تر اسرائیلی یرغمالیوں کو ہی دکھاتا رہا اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی دکھانے میں حد درجہ بخل سے کام لیا۔مغربی میڈیا ایک تو جانب دار تھا دوسرا وہ فلسطینی قیدیوں کی حالتِ زار کو دکھانے سے خائف تھا۔جنگ بندی کی شرائط میں غزہ میں امدادی سامان پہنچانا بھی شامل ہے۔

اس شرط پر بھی عمل در آمد شروع ہو گیا ہے اور اتوار 19جنوری کو ٹرکوں کا ایک بڑا قافلہ غزہ میں داخل ہوا۔یہ قافلے روزانہ کی بنیاد پر ایسا کریں گے، طویل عرصے کے بعد غزہ کے شہریوں نے اسرائیلی حملوں سے نجات پا کر سکھ کا سانس لیا۔اس جنگ میں بے شمار فلسطینی بچے اور خواتین ماری گئی ہیں۔ جن بچوں نے برستی آگ میں یہ دن گزارے ہیں،جو زخمی ہیں،جن کے والدین مارے گئے ہیں ،جن کے گھر زمین بوس ہو چکے ہیں، جن کا کوئی سرپرست نہیں رہا،وہ شدید ٹراما میں ہیں۔

15ماہ سے جاری اس جنگ میں ایران اور شام کا بہت نقصان ہوا ہے۔ایران کے کئی سینئر سول اور فوجی اہلکار مار دیے گئے۔مدل ایسٹ میں ایران کی حیثیت کو بہت دھچکا لگا ہے۔اس کی پراکسی تنظیموں کو اسرائیل نے بہت کمزور کر دیا ہے۔حزب اﷲ کی ٹاپ لیڈرشپ کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ایران کے سب سے بڑے حامی بشار الاسد بھاگ گئے ہیں۔حماس کی بھی صفِ اول کی لیڈرشپ کے خاتمے کے ساتھ اس کے ہزاروں جنگجو مارے گئے ہیں لیکن حماس کے جتنے جنگجو مارے گئے اس سے زیادہ تعداد میں ریکروٹ اسے مل گئے۔حماس نے اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے لیکن اسے کئی بڑے فائدے بھی ہوئے ہیں۔

عرب دنیا فلسطینی مسئلے کو بھول چکی تھی اور اسرائیل سے ابراہام اکارڈ کے نام پر تعلقات استوار کر رہی تھی۔قریب تھا کہ القدس الشریف اور فلسطینی ریاست کا معاملہ دفن ہو جائے لیکن اس جنگ سے یہ مسئلہ از سرِنو نمایاں ہو گیا ہے۔دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ مغرب کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبا نے خاص کر اور عوام نے عام طور پر فلسطینی مسئلے کی حمایت میں ریلیاں نکالیں اور دھرنے دیے ہیں۔مغرب کی نوجوان نسل فلسطین کے مسئلے کو صرف اس جنگ کے حوالے سے جاننے لگی ہے۔

انھوں نے صیہونی ریاست کے مکروہ چہرے کو دیکھ لیا ہے اسرائیل کے ایک وزیر نے مانا ہے کہ مغربی نوجوان نسل اسرائیل کے حق میں نہیں۔اقوامِ متحدہ کے اراکین ممالک کی اکثریت نے فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے۔

جنوبی افریقہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتلِ عام کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے گیا جہاں نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ دنیا نے فلسطینی عوام کے عزم و حوصلہ کو دیکھ لیا ہے۔حالیہ تاریخ میں شاید ہی کسی اور قوم نے اتنی تباہی بربادی اور برستی آگ میں اپنی کاز کی سچائی کے لیے اتنی قربانیاں دی ہوں،اپنی روح کو زندہ رکھتے ہوئے سر اونچا رکھا ہو۔اس جذبے،اس عزم و حوصلے کی جتنی ستائش کی جائے،بہت کم ہے۔

قطر کے جناب محمد بن عبدالرحمن نے اسکائی نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے بڑا انکشاف کیا کہ حالیہ حماس،اسرائیل ڈیل کی تمام شرائط بالکل وہی ہیں جو قطر،مصر اور کچھ عرب ممالک نے پچھلے سال دسمبر 2023میں پیش کی تھیں،یہ کہ اس ڈیل کو اسرائیلی مذاکراتی ٹیم نے بھی او کے کر دیا ، لیکن نیتن یاہو نے رد کر دیا تھا۔پورا ایک سال گنوا کر اور مزید 30ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر آخر کار وہی ڈیل مان لی گئی۔

نیتن یاہو، جو بائیڈن اور انٹونی بلنکن قتلِ عام کو روکنا نہیں چاہتے تھے،یوں ان تینوں کی سفاکی اور ہٹ دھرمی سے خون بہتا رہا۔پچھلے سال اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں دسمبر کے پہلے ہفتے سیز فائر کی قرار داد پیش ہوئی جسے امریکا نے ویٹو کر کے مڈل ایسٹ کو آگ کے دریا میں چھوڑ دیا اور قتلِ عام جاری رہا یہ تینوں افراد اب بھی قتلِ عام کو روکنا نہیں چاہتے تھے لیکن شایدٹرمپ کے ایلچی جناب Steveکے مثبت کردار ادا کرنے سے سیز فائر ممکن ہوا۔

اگر معاہدے پر مکمل عملدرآمد ہوا تو صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل اپنا کوئی بھی ہدف پورا نہیں کر سکا۔وہ حماس کا صفایا کرنے میں ناکام رہا اور غزہ کو فلسطینیوں سے خالی بھی نہیں کروا سکا۔فلسطینی شدید ترین مشکلات میں ہر صیہونی ستم سہہ کر بھی اپنے علاقوں میں رہے اور اسرائیل کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں