فلسطین کی اِس ننھی مُنی اور تنگ سی جغرافیائی پٹی (غزہ) میں پندرہ ماہ کی خونیں ، خونریز اور تباہ کن طویل جنگ کے بعد فریقین کی توپیں اور بندوقیں خاموش ہو گئی ہیں ۔ پاکستان اور بھارت میں دو بار بڑی جنگیں ہُوئی ہیں ۔ دونوں ہی تقریباً دو،دو ہفتے جاری رہیں اور دو ہفتوں کے دوران ہی دونوں فریقین کی تقریباً بس ہو گئی تھی ۔
غزہ اور اسرائیل کے درمیان 60ہفتے جنگ رہی ہے ؛ چنانچہ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دونوں متحارب دھڑوں کا معاشی ، سماجی اور معاشی اعتبار سے کیا حال ہُوا ہوگا ۔ یہ جنگ دو ایسے غیر متوازن دھڑوں کے درمیان ہُوئی ہے جس کا باہمی کوئی جوڑ اور مقابلہ نہیں تھا ۔ اسرائیل ہر لحاظ سے غزہ کے جنگجوؤں ( حماس) سے بہتر ، برتر اور طاقتور تھا ۔ اُسے امریکا سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک کی بھرپور سیاسی ، معاشی اور دفاعی امداد بھی حاصل تھی ۔
جب کہ غزہ میں حماس کے جنگوؤں کو عالمِ اسلام کے کسی ملک کی طرف سے اسلحی امداد مل رہی تھی نہ معاشی ۔ ایک دو مسلم ممالک کی جانب سے جو خفیہ طور پر حماس کے مجاہدین کو اعانت حاصل تھی بھی ، وہ بھی شام اور لبنان کی اسرائیل کے ہاتھوں شکست یا پسپائی کے بعد دَم توڑ گئی ؛ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حماس کے جنگجو اور مجاہدین صہیونی قاہر و ظالم افواج کے خلاف جی جان سے لڑے ہیں تو اپنے بَل پر لڑے ہیں ۔ اپنے تئیں کامیاب بھی ہُوئے ہیں ، خصوصاً اِن معنوں میں کہ اسرائیل کا یہ اعلان کہ ہم حماس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے ، سچ ثابت نہیں ہُوا ۔ حماس آج بھی موجود ہے اور غزہ میں اُسی کے پرچم لہرا رہے ہیں ۔
سر زمینِ غزہ ، اہلِ غزہ اور حماس کی ہمت ، شجاعت اور استقامت بارے جتنی بھی اورجیسی بھی اطلاعات ہم تک پہنچی ہیں ، یہ سب امریکی اور مغربی خبر رساں اداروں اور صحافیوں کی محنتوں اور مشقتوں کے نتیجہ ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک بھی صحافی یا خبر رساں ادارہ ’’غزہ‘‘ کے جنگی میدانوں تک پہنچا نہ وہاں سے براہِ راست رپورٹنگ کرنے کا اعزاز حاصل کر سکا ۔
منطق یہ دی جاتی رہی ہے کہ اسرائیل کی سخت گرفت کے کارن’’ غزہ‘‘ کے جنگی میدانوں تک رسائی ممکن نہیں تھی ۔ اگر یہ دلیل اور منطق تسلیم بھی کر لی جائے تو عالمی و مغربی خبر رساں اداروں کے جنونی رپورٹرز کیسے ’’ غزہ‘‘ کے خونی اور خونریز میدانوں میں پہنچے اور ساری دُنیا کو صہیونی و جارح اسرائیل کے مظالم، شقاوت اور زیادتیوں سے آگاہ کیا ؟ہمارے پاس مگر ایک ایسی مسلمان این جی او کے سربراہ بھی ہیں جو’’ غزہ‘‘ میں مہلک جنگی ماحول کے باوجود بار بار خونی میدانوں میں پہنچے اور جنگ سے متاثر ہونے والے بھوکے ، پیاسے اور ادویات کے لیے تڑپتے اہلِ غزہ تک متعدد بار اور متنوع امداد پہنچانے میں کامیاب رہے ۔
اسرائیلی افواج کی گھن گرج توپیں اگر اُن کا راستہ مسدود بھی کرتی رہیں تو وہ’’ غزہ‘‘ کے ہمسایہ ممالک (مصر ، اُردن ، شام) کی سرحدوں سے گزر کر یا کبھی اِن ممالک کی سرحدوں پر ڈیرے لگا کر دامے ، درمے غزہ کے مظلوم و متاثرین کی مقدور بھی اعانت کرنے میں کامیاب رہے ۔ برطانیہ میں بروئے کار اِس باہمت مسلم این جی او کا نام ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل‘‘ ہے۔ جناب عبدالرزاق ساجد اِس تنظیم کے چیئرمین ہیں ۔
اب جب کہ غزہ میں اسرائیلی بارُود باری رُک چکی ہے ۔ نَو منتخب امریکی صدر ( ڈونلڈ ٹرمپ) کی دھمکی اور قطر و مصر کی کوششوں کے سبب غزہ میں امن کی فضا قائم ہو چکی ہے ۔ لاکھوں لُٹے پِٹے ، مجروح اور غمزدہ اہلِ غزہ واپس تباہ کن علاقوں میں اپنے اپنے زمین بوس گھروں کی تلاش میں واپس لَوٹ رہے ہیں ، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ، عبدالرزاق ساجد، بھی اپنے ادارے کے چنیدہ افراد کے ساتھ ایک بار پھر’’ غزہ‘‘ کے متاثرین کی ہر ممکنہ دلجوئی اور اعانت کے لیے، براستہ مصر، وہاں پہنچے ہیں۔
بذریعہ موبائل فون اپنے مشاہدات میں ہمیں شریک کرکے اُنھوں نے اہل ’’ غزہ‘‘ کی تباہی بارے جو کہانیاں سنائی ہیں ، دل بھر آیا ہے ۔ ساجد صاحب بتا رہے تھے :’’ اہلِ غزہ کے لیے روٹی ، پانی اور خیموں کی فوری اور وافر مقدار میں فراہمی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ ایمر جنسی اور ہنگامی طور کی حد تک، لیکن سب سے سنگین اور بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ تباہ شدہ ’’غزہ‘‘ کے لاکھوں ٹن ملبے کے نیچے جو ہزاروں کی تعداد میں اہلِ غزہ زخمی حالتوں میں دبے ہیں ، اُنہیں نکالنا اور پھر اُنہیں فوری طور پر مطلوبہ طبی امداد فراہم کرنا ۔‘‘
اِس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے کے لیے ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام’’ غزہ‘‘ سے متصل (مصر ی جانب ) ہنگامی طور پر ایک اسپتال تعمیر کیا جارہا ہے ۔ عبدالرزاق ساجد نے بتایا:’’ فوری طور پر ہمارے ادارے نے اِس اسپتال کے لیے ایک ملین پاؤنڈ کی رقم فراہم کر دی ہے ۔ یہ اسپتال مصری حکومت کی اجازت اور نگرانی میں کام کریگا ۔ اِس میں ڈاکٹرز اور نرس اسٹاف بھی مصری ہی ہوگا۔ اخراجات المصطفیٰ ویلفیئر برداشت کرے گا ۔
پروگرام یہ ہے کہ غزہ کے ملبے تلے دبے افراد کو نکال کر فوری طور پر علاج معالجے کے لیے یہاں شفٹ کیا جائے ۔مصر کے بہترین آرتھو پیڈکس سرجن یہاں خدمات انجام دیں گے ۔ ہم اِس سے قبل ’’غزہ‘‘ کے علاقے ( جبالیہ) میں بھی عارضی بنیادوں پر ایک اسپتال کھڑا کر چکے ہیں ۔ یہ تجربہ بھی اب ہمارے کام آ رہا ہے۔ میڈیکل مشینری ہم مصر ، اُردن اور برطانیہ سے لا رہے ہیں۔رمضان المبارک سے قبل ہمارا یہ اسپتال ، انشاء اللہ ، بروئے کار آجائیگا۔‘‘
تباہ حال’’ غزہ‘‘ ساری ملت اسلامیہ کی جانب دیکھ رہا ہے ۔ دورانِ جنگ تو اسلامی ممالک کا جذبہ اخوت سویا ہی رہا ۔ اب ’’ غزہ‘‘ والے منتظر ہیں کہ دُنیا بالخصوص اسلامی دُنیا کی جانب سے کب اور کیسے مطلوبہ امداد پہنچتی ہے ؟ امن معاہدے کے بعد یو این او کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس ، نے تصدیق کر دی ہے کہ خورونوش اور مطلوبہ انسانی ضروریات سے لدے پھندے ایک ہزار سے زائد ٹرک ’’غزہ‘‘ پہنچ چکے ہیں۔ یہ ٹرک مصر کی جانب ، اسرائیلی دباؤ کی وجہ سے، رُکے ہُوئے تھے ۔
عبدالرزاق ساجد صاحب مگر اپنے تازہ ترین مشاہدات اور معلومات کی بنیاد پر کہتے ہیں:’’ یو این او کی امداد کے باوصف بے تحاشہ تباہ حال اہلِ غزہ کو متنوع قسم کی بے تحاشہ امداد کی ضرورت ہے ۔ سب سے اہم ’’ غزہ‘‘ کی تعمیرِ نَو ہے ۔ ہم اپنے ادارے کے تحت جدید ترین اور محفوظ ترین خیمے اہلِ غزہ کو مسلسل فراہم تو کررہے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہیں ۔ غزہ کی تعمیر نَو کے لیے جملہ اسلامی ممالک کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ اِس وقت ملت اسلامیہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ ہم المصطفیٰ کے پلیٹ فارم سے ، پہلی قسط میں ، ایک سو مکانات تعمیر کرکے غزہ کے کچھ باشندوں کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اِس کے لیے فنڈز اکٹھے ہو چکے ہیں ۔‘‘
غزہ 365مربع کلومیٹر علاقے کو محیط ہے ۔ 7اکتوبر2024کے حملے سے قبل اِس کی آبادی 23لاکھ تھی۔ صہیونی اسرائیل 46ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید کر چکا ہے۔ اِن میں نصف بچے ہیں ۔ دو لاکھ سے زائد مہاجر اور 85فیصد اہلِ غزہ گھروں سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ غزہ پانچ بڑے حصوں میں منقسم ہے۔
بڑے شہروں میں جبالیہ، الشاطی، مغازی، نصیرات ،دیر البلاح، خان یونس اور رفاح نمایاں ہیں ۔ امریکا نے اِن شہروں کا جو تازہ ترین سیٹلائیٹ امیج جاری کیا ہے ، بتاتا ہے کہ غزہ کے 90فیصد شہر تباہ ہو چکے ہیں۔ غزہ میں 12بڑی یونیورسٹیاں ہُوا کرتی تھیں۔ ایک بھی اب باقی نہیں رہی ۔ غزہ میں 12 بڑے اسپتال اور114جدید ترین کلینکس تھے ۔ اب سب تباہ ہو کر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔ غزہ کی تعمیر نَو سہل نہیں ہے ۔