درویش صفت موسیقار

وہ اپنے کام کے ماہر تھے جب تک کسی گانے سے مطمئن نہ ہوتے گانے کی ریکارڈنگ نہ کرتے۔


رئیس فاطمہ January 24, 2025
[email protected]

ماتھے پہ سجدے کا نشان، سر پہ سفید بال، گندمی رنگت، چشمے کے پیچھے سے جھانکتی گہری نگاہیں جیسے مخاطب کے دل کا حال جان لیں گی۔ میری پہلی ملاقات گورنمنٹ ویمن کالج کے فنکشن کے سلسلے میں ہوئی، ہمارے کالج میں ہفتہ طالبات میں موسیقی کا شعبہ میرے پاس تھا، محفل غزل کا پروگرام تھا۔ میں انھیں جج کے طور پر بلانے کچھ طالبات کے ساتھ گئی، نہایت شفقت سے ملے اور بغیر کوئی عذر پیش کیے آنے پر رضامندی ظاہر کردی۔

لہجے میں عجز نمایاں تھا، ہم سب بہت متاثر ہوئے۔ جب میں نے کہا کہ آپ کو لینے ہماری طالبات آئیں گی تو بولے ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، آپ کا کالج تو لب سڑک ہے، میں خود آجاؤں گا۔‘‘ یہ تھے بلند پایہ موسیقار نثار بزمی جو یکم دسمبر 1924 کو ممبئی کے نزدیک خاندیش میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام تھا سید قدرت علی جو مولوی تھے۔ انھیں بچپن ہی سے راگ راگنیوں سے لگاؤ تھا، وہ ابتدا ہی سے مشہور بھارتی موسیقار امان ولی سے متاثر تھے، اسی لیے صرف تیرہ سال کی عمر میں راگوں پر عبور حاصل کر لیا تھا، 1944 میں انھوں نے ممبئی ریڈیو سے نشر ہونے والے ڈرامے ’’ نادر شاہ درانی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔

اس کھیل کے سارے گیت سپرہٹ رہے اور اس کے ساتھ ہی کامیابی نے ان کے قدم چومے، یہ ان کی زندگی کا سنہرا سال ثابت ہوا اور ان کی شہرت اگلے دو سال میں آل انڈیا ریڈیو سے نکل کر ممبئی کے فلمی اسٹوڈیو تک جا پہنچی اور ڈائریکٹر اے آر زمیندار نے انھیں اپنی فلم ’’جمنا پار‘‘ کے گانے کمپوز کرنے کی پیشکش کی۔ یہ فلم 1946 میں ریلیز ہوئی اور پھر اگلے بارہ برس کے دوران انھوں نے چالیس فلموں کی موسیقی دی۔ لتا، آشا بھونسلے، مناڈے اور محمد رفیع سے گانے گوائے، رفیع کی آواز میں فلم ’’کھوج‘‘ کا گانا، چاند کا دل ٹوٹ چلا رونے لگے ستارے، خوب چلا۔ یہ گیت آل انڈیا ریڈیو کا پسندیدہ گیت تھا جسے بڑی شہرت ملی۔

ممبئی میں بے پناہ پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود نثار بزمی نے کبھی معاوضے کی بات نہیں کی۔ انھوں نے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی کو بطور نغمہ نگار متعارف بھی کروایا اور کلیان جی آنند جی کی جوڑی کو سازندوں کی جگہ سے اٹھا کر موسیقاروں کی صف میں شامل کرایا۔ ممبئی میں وہ ایک نامور موسیقارکی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے اور لکشمی کانت پیارے لال جیسے بڑے موسیقار ان کی معاونت میں کام کرچکے تھے۔ ممبئی میں ان کی بڑی عزت تھی، فلمی حلقوں میں احترام کے ساتھ یاد کیے جاتے تھے۔

1962 میں نثار بزمی ایک شادی میں شرکت کے لیے کراچی آئے تو نامور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی سے ان کی ملاقات ہوئی اور انھوں نے ایک فلم بنائی جس کا نام تھا ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘۔ فضلی صاحب نے نثار بزمی سے درخواست کی کہ وہ ان کی فلم کے لیے موسیقی دیں، یہ پاکستان میں ان کی پہلی فلم تھی جس میں کمال اور زیبا کام کر رہے تھے، بزمی صاحب کے کمپوز کیے ہوئے دو گیت بہت مقبول ہوئے۔ پہلا نورجہاں کی آواز میں ’’ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں‘‘ اور دوسرا ’’ محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ اس کے بعد رشتے داروں کے زور دینے پر وہ مستقل طور پر پاکستان ہی میں رہ گئے لیکن پاکستان فلم انڈسڑی میں قدم جمانا آسان نہیں تھا وہ بھی بھارت سے آئے ہوئے ایک ایسے شخص کا جس کا نام بھارت میں بلندیوں پر تھا۔

قدم قدم پر سازشیں، یہاں کے موسیقاروں نے نثار بزمی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا اور پوری کوشش کی کہ وہ بھارت واپس چلے جائیں لیکن وہ تو اپنی ساری کشتیاں جلا کر آئے تھے مڑ کر کیسے دیکھتے، لیکن وہ دکھی بہت ہوئے کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا وہاں ایک مسلمان موسیقار کے لیے جگہ نہیں تھی کیونکہ وہ بھارت سے ہجرت کرکے آیا تھا۔

بہرحال فضلی صاحب کی فلم ’’ ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ کے بعد فلمی موسیقی کے دروازے ان پر کھل گئے۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد انھیں ایک فلم ’’ہیڈ کانسٹیبل‘‘ملی جو کامیاب رہی۔ بعد میں انھوں نے چار سو فلموں میں اپنا میوزک دیا، ٹیلی وژن سے بھی منسلک رہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں فلمیں بنتی تھیں۔ اردو فلموں کا یہ گولڈن ایرا تھا۔ رشید عطرے، خواجہ خورشید انور، خلیل احمد، روبن گھوش، ماسٹر عنایت اور بابا چشتی اپنی موسیقی سے گیتوں میں چار چاند لگا رہے تھے۔ کمرشل سطح پر لال محمد اقبال، منظور اشرف، رحمان ورما، بخشی وزیر، ناشاد اور وزیر افضل کا زمانہ تھا۔

موسیقاروں کے اس جھرمٹ میں نثار بزمی نے اپنی جگہ خود بنائی۔ حسن طارق کی فلموں میں میوزک بزمی صاحب کا تھا اور آواز رونا لیلیٰ کی۔ ان کی فلمیں ثریا بھوپالی، انجمن، تہذیب اور امراؤ جان بڑی کامیاب فلمیں تھیں، ان فلموں میں رونا لیلیٰ نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا، رونا کی آواز نثار بزمی کو بہت پسند تھی، نئی نسل کی نمایندہ گلوکارہ تھی، رونا لیلیٰ اونچے سروں میں بہت خوب گاتی تھی، لیکن اس گلوکارہ کی بدقسمتی کہ پاکستان میں نور جہاں نے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور بھارت گئی تو لتا کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آیا۔ اس نے رونا کے خلاف ایک محاذ کھول دیا اور موسیقاروں کو منع کر دیا کہ وہ رونا کو کوئی گانہ نہ دیں۔

اسی رونا لیلیٰ کی تعریف کی وجہ سے پنجاب کی سرزمین نثار بزمی پر تنگ کر دی گئی۔ صرف اس بات پرایک گلوکارہ نے ان کے خلاف محاذ کھول لیا کہ ایک انٹرویو میں نثار بزمی نے رونا لیلیٰ کو ’’مستقبل کی آواز‘‘ قرار دیا تھا۔اس گلوکارہ کو ان کی یہ جرأت پسند نہ آئی اور انھوں نے نثار بزمی کو فوری طور پر لاہور سے نکل جانے کا حکم صادر فرما دیا ۔ کوئی مداخلت نہ کرسکا۔ البتہ کچھ لوگوں نے جب کوشش کی تو حکم صادر ہوا کہ نثار بزمی،اس گلوکارہ سے معافی مانگیں، بزمی صاحب چپ چاپ لاہور چھوڑ آئے اور کراچی میں وہ نوجوانوں کو موسیقی کی تعلیم دینے لگے۔

وہ اپنے کام کے ماہر تھے جب تک کسی گانے سے مطمئن نہ ہوتے گانے کی ریکارڈنگ نہ کرتے۔ امراؤ جان ادا کا گیت ’’جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں‘‘ نور جہاں کی آواز میں تھا، سترہ ری ٹیک کے باوجود وہ مطمئن نہ تھے، لیکن پھر نور جہاں کی ضد ہی سے ریکارڈ کر لیا۔

ان سے ایک ملاقات میں پوچھا کہ کیا کبھی انھیں اپنے پاکستان آنے پر افسوس ہوا، تو انھوں نے کہا کہ انھیں جب لاہور چھوڑنے کے لیے کہا گیا اور تمام فلم سازوں کو منع کر دیا کہ کوئی مجھے اپنی فلم نہ دے تو مجھے یہ دکھ ہوا کہ کاش میں پاکستان نہ آتا۔ وہاں تو ہندوؤں نے مجھے عزت دی، مان دیا، یہ تو ایک اسلامی ملک تھا۔نثار بزمی کو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ 1968 میں فلم ’’صاعقہ‘‘ کی موسیقی پر اور 1970 میں فلم ’’انجمن‘‘ کے میوزک پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مشہور فلموں میں امراؤ جان ادا، انجمن، صاعقہ، تاج محل، آسرا، انیلہ، جیسے جانتے نہیں، عندلیب، ناز، بے وفا، نورین، الجھن، محبت رنگ لائے گی، آشنا، تہذیب، محبت، ناگ منی، میری زندگی ہے نغمہ، سرحد کی گود میں، ملاقات، پیاسا اور آس میں رونا لیلیٰ کے گائے ہوئے گیتوں نے تہلکہ مچا دیا تھا۔

(1)۔ آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے (2)۔کاٹے نہ کٹے رے رتیاں سیاں تیرے انتظار میں (3)۔ دل دھڑکے میں ان سے یہ کیسے کہوں،کہتی ہے میری نظر شکریہ

رونا لیلیٰ سے موازنہ کسی گلوکارہ کو زیب نہیں دیتا تھا، کیونکہ وہ تقسیم ہند سے پہلے سے گا رہی تھیں، فلموں میں کام کر رہی تھی، رونا لیلیٰ کے راستے میں روڑے اٹکانا کسی کو زیب نہیں دیتا تھا۔ صرف اس بات پر کہ انھوں نے رونا لیلیٰ کو ’’مستقبل کی آواز‘‘ کہہ دیا۔ وہ تو ماضی کی نامور گلوکارہ اور اداکارہ ہیں۔

بہرحال 22 مارچ 2007 میں نثار بزمی اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں