curse of resources انگریزی زبان کی ایک اصطلاح ہے جو ایسے ممالک کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو معدنی، قدرتی وسائل سے تو مالا مال ہوتے ہیں لیکن ان کی غربت ، بددیانتی اور بد نیتی ان وسائل کو اِن کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بنا دیتی ہے۔
یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کسی کمزور، غریب خانماں برباد کا کروڑوں کا انعام نکل آئے تو اس کے فوائد خود اس کو نصیب نہیں ہوتے۔خیر سے ہم بھی اُن ممالک میں شامل ہیں جن کے وسائل ہی اُن کے لیے جان کا روگ بن جاتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے اس ملک کے بدنصیب لوگ یہ سُن رہے ہیں کہ پاکستان معدنی دولت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس نعمت خداوندی کا کوئی اثر اس ملک کے غریب عوام کے چہروں پر نظر نہیں آتا۔ اب ریکو ڈیک کی مثال لے لیں،سیاست سے لے کر عدالتی کَر و فر تک ، ہر سمت سے اس منصوبے کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ریکوڈیک منصوبے پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی کے افسر اعلیٰ کے حالیہ انٹرویو میں ہمارے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم نے پہلے کبھی کسی اپنے پرائے سے کچھ نہیں سیکھا تو اب کیا سیکھیں گے۔انٹرویو سے پہلے کچھ بنیادی معلومات کا ذکر ہو جائے۔ ریکوڈیک Tethyan Magmatic Arc کا حصہ ہے جو دنیا میں تانبے کے ذخائر پر مشتمل سب سے طویل پٹی ہے۔ یہ پٹی وسطی اور جنوب مشرقی یورپ سے شروع ہوکر پاکستان کے راستے پاپوانیوگنی تک پھیلی ہوئی ہے۔
اب اس منصوبے کی کامیابی کا یقین پیدا ہوا ہے تو سعودی عرب کی فرم ’منارہ منرلز‘ نے حکومت پاکستان سے اس منصوبے کے ’ایکویٹی اسٹیکس‘ خریدے ہیں۔ اس منصوبے پر کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ (Barrick Gold) کام کر رہی ہے۔
جیسے جیسے دنیا میں برقی گاڑیوں کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے ویسے ویسے تانبے کی مانگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ قابل تجدید توانائی کے ذرایع اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بھی ان دھاتوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ریکوڈیک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کے سی ای او ’مارک بریسٹو‘ کا حال ہی میں ایک معتبر مغربی جریدے نے تفصیلی انٹرویو شایع کیا ہے جسے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بندہ کسی دوسرے ملک کی نہیں بلکہ اپنے ملک کی بات کر رہا ہے۔ مارک بریسٹو نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ریکوڈیک ماضی میں سیاسی کھینچا تانی اور بے جا عدالتی مداخلت سے متاثر ہوا ہے لیکن اب تمام معاملات ٹھیک سے چل رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کان 2028 میں پیداوار کا آغاز کر دے گی اور تانبے کی مانگ میں مزید اضافہ ہو چکا ہو گا۔ تخمینہ یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے کان کا پہلا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔
یہ ابتدائی پیداواری مرحلہ ہوگا جس میں کان سے سالانہ دو لاکھ ٹن خام تانبہ اور 2 لاکھ 50 ہزار اونس سونا حاصل ہوگا۔ اگلے مرحلے میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی مزید سرمایہ کاری سے کان کی پیداوار دو گنا ہوجائے گی اور ہر برس 4لاکھ ٹن تانبہ اور 5 لاکھ اونس سونا حاصل ہوگا۔ ’مارک بریسٹو‘ نے یہ بھی بتایا کہ ریکوڈیک میں موجود تانبے کے ذخائر اپنے معیار میں بہت اچھے ہیں جس کے خام تانبے میں خالص تانبے کی مقدار 53 فیصد ہے۔جب یہ کان مزید وسعت اختیار کرکے پوری پیداواری صلاحیت کے ساتھ کام کرے گی تو ہر برس اس سے 90 ملین ٹن خام تانبہ نکالا جائے گا جسے ریفائنری میں قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ریکوڈیک کا سارا خام تانبہ بیرون ملک برآمد کیا جائے گا کیونکہ پاکستان میں تانبے کی ریفائنری موجود نہیں۔ موجودہ قیمت کے مطابق عالمی مارکیٹ میں ایک ٹن خام تانبے کی قیمت 7 ہزار ڈالر ہے۔ جس کے مطابق ہر برس 2.8 ارب ڈالر کا تانبہ برآمد کیا جاسکے گا۔اسی طرح اگر سونے کی قیمت کا اندازہ لگایا جائے تو عالمی مارکیٹ میں سونا 18 سو ڈالر فی اونس ہے، لہٰذا سونا برآمد کرنے سے اضافی 450 ملین ڈالر سالانہ حاصل ہوں گے۔جب کان پوری صلاحیت کے ساتھ کام شروع کردے گی تو اسی حساب سے ملک کے لیے فوائد بھی بڑھ جائیں گے۔انھوں نے بتایا کہ بہتر یہ ہے کہ جب کان 6 لاکھ ٹن سالانہ پیداوار شروع کر دے تو ملک کے اندر تانبے کی ریفائنریاں لگائی جائیں۔
اس طرح خالص تانبہ بیرون ملک فروخت کرنے سے آمدن میں اضافہ ہوگا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ جب خالص تانبے کی پیداوار شروع ہوجائے گی تو اُن صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا جو اپنی مصنوعات میں تانبے کا استعمال کرتی ہیں، یوں معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔ اگر ملک تیار مصنوعات بیچتا ہے تو اُس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور ہم اُن ممالک کی صف سے نکل جائیں گے جن کے لیے اپنے قدرتی وسائل مصیبت بن جاتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ ریکوڈیک ملک کے ایک دور دراز مقام پر واقع ہے لہٰذا کان کی پیداوار کو لے جانے کے لیے ریلوے لائن کی ضرورت تھی۔ یہ ریلوے لائن پاکستان ریلوے کی مدد سے مہیا کی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ گزشتہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے اس علاقے میں ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی، لیکن اسے معاشی بہتری کے لیے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اب کہیں جا کر اُس مرحلے کے قریب ہے جس پر دوسرے ملکوں میں ڈیڑھ سو سال قبل عمل ہوچکا ہوتا۔ اب ریل کے ذریعے ’تھر‘ کے کوئلہ کو ملک کے اندر اور بیرون ملک پہنچانا بھی ممکن ہوجائے گا۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ بھاری ساز و سامان اور مال کو ٹرکوں کے مہنگے ذرایع کے بجائے ریل کے سستے ذریعے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔مارک کریسٹو نے بتایا کہ کان پر بجلی کی ضرورت 300 میگا واٹ سے تجاوز کرجائے گی۔ ابتدائی طور پر مقامی تیل سے چلنے والا 150 میگا واٹ کا پاور پلانٹ کان کی ضروریات پوری کرے گا جب کہ شمسی توانائی بھی استعمال کی جائے گی۔
ملک میں بجلی کی پیداوار طلب سے زیادہ ہے لیکن جس قیمت پر بجلی مہیا ہے، اُسے خریدنا ممکن نہیں۔ کان کو قومی گرڈ کے ساتھ اسی وقت منسلک کیا جائے گاجب کان پوری پیداواری صلاحیت سے کام کرنے لگے گی بشرطیکہ قومی گرڈ کی صلاحیت اور کارکردگی کو قابل قبول حد تک بہتر کردیا جائے۔ متبادل طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاور پلانٹ کو تیل کے بجائے مقامی تھر کے کوئلے پر منتقل کردیا جائے۔