دو پیسوں کی افیون

وہ کسی بزرگ نے کہا ہے کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند بھوکوں مرجاتے


[email protected]

کبھی آپ نے سوچا ہے… توبہ توبہ ہم بھی کیا اناب شناب پوچھنے لگے ہیں آپ سے اس’’کام‘‘ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو کبھی آپ سے سرزد نہیں ہوا اور سرزد ہو بھی تو کیسے؟کہ اسے آپ نے سیکھا ہی نہیں اور دنیا کے سارے ڈاکٹروں نے آپ کو مکمل پرہیز لکھا ہوا ہے، اگر آپ کو سوچنا آتا اگر آپ نے سوچنا سیکھا ہوتا اگر آپ سوچنے کی تکلیف گوارا کرتے تو آج آپ کا یہ حال ہوتا ؟راہبر تو دور کی بات ہے آپ راہزن کو پہچانتے نہیں جو آپ کے سامنے ہے اور سو بار اپنے فن کا مظاہرہ آپ پر کر چکا ہے بلکہ بار بار آتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میں پھر تجھے لوٹنے آیا ہوں تیار ہوجاؤ۔اور آپ پھر لوٹنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔

لیکن کیا کریں ہم بھی بندہ بشر اور آپ کے قدوبت کو دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں کہ شاید بھول چوک ہی میں سے آپ سے سوچنے کی بدپرہیزی ہوجائے کوشش کرلینے میں کیا حرج ہے۔ وہ کسی جنگل صحرا میں دو آدمیوں کا ملن ہوا، ایک کے پاس نہایت شاندار گھوڑا تھا۔ساتھ ہی اس پر زین اور دوسرے قیمتی لوازمات جب کہ دوسرے کے پاس ایک لاغر اور زخمی اور لڑکھڑاتا ہوا گدھا تھا۔

باتوں باتوں میں گدھے والے نے گھوڑے والے سے پوچھا سواری بدلنے کے بارے میں کیا خیال ہے اگر راضی ہو تو میں اپنا گدھا تمہارے گھوڑے سے بدلنے کو تیار ہوں۔اس پر گھوڑے والا حیران ہوکر بولا، یہ کیا کہہ رہے رہو کیا میں تجھے احمق نظر آتا ہوں۔ گدھے والے نے کہا کیا پتہ تم ہو کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔آپ بھی ہیں یہ ہمیں معلوم ہے لیکن پھر بھی کوشش کرلینے میں کیا برائی ہے۔ٹھیک ہے آپ’’سوچنے‘‘پر ناراض ہوتے ہیں تو یہ پوچھ لیتے ہیں کہ آپ نے کبھی دیکھا ہے؟کیونکہ کھوپڑی خالی سہی یہ اتنی بڑی اُلو جیسی آنکھیں تو ہیں نا آپ کے چہرے پر، تہمت کی طرح لگی ہوئیں۔

مطلب یہ کہ یہ اردگرد جو ہورہا ہے آپ کو نہیں لگتا کہ دنیا میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً نفرتوں کا گراف انتہائی حدوں کو پہنچ رہا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے لوگ باقی سب کچھ بھول چکے ہوں، محبت، رشتے ناطے، انسانیت، رحم، کرم اور بھائی چارہ ، عفوو درگزر، برداشت، افہام وتفہیم۔دنیا سے مکمل طور پر اٹھ چکے ہوں۔اور انسان نفرتوں، کدورتوں اور دشمنیوں کا مجسمہ ہوکر رہ گیا ہو۔اس سوکھے خس وخاشاک کی طرح جس پر تیل بھی چھڑکا گیا ہو اور جو ایک چھوٹی سی چنگاری سے بھڑک اٹھتا ہو۔

اب تک تو یہ آگ ذرا دور رہتی تھی کشمیر، فلسطین، یمن یہاں وہاں نہ جانے کہاں کہاں۔لیکن اس کرم ایجنسی کو ہم کیا کہیں گے؟اس پاکستانی سیاست میں نفرتوں کی انتہا کو کیا سمجھیں گے بلکہ شہر شہر، گاؤں گاؤں، مسجد مسجد اور فرقہ فرقہ، برادری برادری اور پیشے پیشے میں یہ جو زہر ہلاہل بہنے لگا ہے اسے کیا سوچیں کیا سمجھیں اور کیا کہیں۔

اور یہ جو ساری دنیا کو مار مار کر پیٹ پیٹ کر، توڑ پھوڑ کر مسلمان بنانے کا رجحان ہے اسے ہم کیا سمجھیں گے کیا مساجد میں بلاسٹ کرکے،اسکولوں میں خون کی ہولیاں کھیل کر، بازاروں میں دھماکے کرنے سے، پولیس والوں کو اڑانے سے’’اسلام‘‘ نافذ ہوجائے گا ۔ تحقیق کا ایک سیدھا سادا اصول ہے۔جب کوئی جرم ہوتا ہے فرض کرلیجیے قتل ہوجاتا ہے۔تو سب سے پہلے موٹیو ڈھونڈا جاتا ہے کہ آخر اس قتل کا محرک کیا تھا۔اگر موٹیو صاف اور سامنے ہو یعنی دشمنی انتقام یا اتفاقی جھگڑا یا پرانی دشمنی ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر وجہ نامعلوم ہو تو پھر دیکھا جاتا ہے کہ اس قتل سے ’’فائدہ‘‘کس کو پہنچ رہا ہے یا پہنچا ہے۔

کیا کشمیر، فلسطین اور ایسے دوسرے معاملات سے برسرمیدان لڑنے والوں کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے۔؟تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو نقصان ہی نقصان ہورہاہے دونوں ہی اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کاٹ کر ہتھیار جمع کرنے پر مجبور ہیں تو فائدہ کس کو ہوا؟۔چلیے دور دور جانے کے بجائے اپنے قریب ترین اور تازہ ترین کرم ایجنسی کے تازہ ترین واقعے پر سوچتے ہیں اس میں فائدہ کس کو پہنچا بلکہ یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی یہاں تصادم ہوتے رہے۔

ان سب میں کسی کو کوئی معمولی فائدہ پہنچا ہے نقصان ہی نقصان تباہی ہی تباہی بربادی ہی بربادی ہوتی رہی ہے کسی بھی فریق کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔ تو پھر کیوں یہ بے فیض خونریزیاں ہورہی ہیں اور اگر اس پر ’’موٹو‘‘کی روشنی میں غور کیا جائے تو صاف صاٖف مجرم کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہی ہے جس کو اس سے فائدہ ہورہا ہے وہی جس کا اسلحہ مارکیٹ ہورہا ہے کوئی بھی مرے جیئے تباہ ہوجائے اسلحہ تو ان کا بک جاتا ہے اور تب تک بکتا رہے گا جب تک دنیا میں جذباتی بے وقوف موجود ہیں۔

وہ کسی بزرگ نے کہا ہے کہ اگر دنیا میں احمق نہ ہوتے تو عقل مند بھوکوں مرجاتے۔اور احمق جذباتی ہوتا ہے چاہے جذبات کسی بھی شکل میں ہوں۔کیوں کہ جب جذبات کسی سر میں موجود ہوں یا آجاتے ہیں تو عقل رخصت ہوجاتی ہے۔وہ عام سی بات تو آپ نے سنی ہوگی کہ کسی نے غصے سے کہا کہ تم کہاں رہتے ہو بولا ’’سر‘‘میں۔مگر وہاں تو عقل رہتی ہے۔بولا جب میں آجاتی ہوں وہ بھاگ جاتا ہے اور آخر میں ایسا ہی ایک دوسرا قصہ۔کہ افیونی نے دکاندار سے دو پیسے کی افیون مانگی۔ دکاندار نے کہا کہ دو پیسے کی افیون سے کیا نشہ ہوگا۔ افیونی نے کہا نشہ، میرے سر میں بہت ہے بس تھوڑے سے دھکے کی ضرورت ہے۔ اور وہ تھوڑا سا دھکا اسلحہ فروش کسی نہ کسی طرح دے ہی دیتے ہیں۔ اب اس’’سر‘‘ کا پتہ لگانا تو اتنا مشکل نہیں ہے نا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں