صیہونیت کی الف ب ت اور باوا آدم (قسط سوم)

اسے مملکتِ اسرائیل کے روحانی باپ اور صیہونیت کے باوا آدم کا درجہ حاصل ہے۔


وسعت اللہ خان January 25, 2025

چودہ مئی انیس سو اڑتالیس کو جب ڈیوڈ بن گوریان نے مملکتِ اسرائیل کی تشکیل کا باٰضابطہ اعلان کیا تو اس اعلان میں صرف ایک شخص کا نام شامل تھا۔اور اسی شخص کی تصویر کے سائے میں یہ اعلان پڑھا گیا۔حالانکہ اس شخص کا انتقال چوالیس برس قبل آسٹریا میں چوالیس برس کی عمر میں ہو چکا تھا۔

 اسرائیل کے قیام کے اگلے برس ( انیس سو انچاس ) اس کے جسد کو یروشلم منتقل کر کے اسی کے نام سے معنون ایک پہاڑی پر دفنایا گیا۔اس کے پہلو میں اس کی اہلیہ اور بچوں کی بھی قبریں ہیں۔ایک شہر اس کے نام پر ہے۔اسے مملکتِ اسرائیل کے روحانی باپ اور صیہونیت کے باوا آدم کا درجہ حاصل ہے۔جو بھی اہم غیر ملکی مہمان اسرائیل آتا ہے اس کے مزار پر حاضری ضرور دیتا ہے۔

وکیل ، صحافی ، ادیب اور صیہونی سیاسی مرشد تھیوڈور ہرزل ہنگری کے شہر بوڈاپسٹ میں ایک متمول یہودی کاروباری خاندان میں مئی اٹھارہ سو ساٹھ میں پیدا ہوا۔یورپی اشرافیہ کا حصہ ہونے کے باوجود بقول ہرزل اس نے روزمرہ زندگی میں جو تعصبات محسوس کیے۔ان کے نتیجے میں وہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچا کہ یورپی سماج میں یہودیوں کی ایک مساوی درجے پر مکمل قبولیت کبھی ممکن نہیں ہو گی۔ ایک ہی حل ہے کہ ایک آزاد و خود مختار یہودی ریاست ہو جہاں دنیا بھر میں بکھرے یہودی تحفظ کی فضا میں یکجا رہ سکیں۔

اٹھارہ سو چھیانوے میں ہرزل نے ’’ یہودی قومی ریاست کے خدو خال ( دیر جوڈن شٹاٹ ) ‘‘ کے نام سے کتابچہ شایع کیا۔یہ کتابچہ یہودی حلقوں میں پرجوش انداز میں لیا گیا اور صرف ایک برس بعد اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوئس قصبے بیسل میں پہلی صیہونی عالمی کانگریس منعقد ہوئی۔ ہرزل کو اس کانگریس کا صدر چنا گیا اور اسے اور اس کے بنیادی نظریاتی ساتھیوں کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ نوآبادیاتی طاقتوں کے فیصلہ سازوں سے رابطہ کر کے انھیں ممکنہ طور پر فلسطین میں ایک یہودی ریاست کی افادیت پر قائل کریں۔

ہرزل نے اٹھارہ سو اٹھانوے میں پہلی بار فلسطین دیکھا۔یہ یاترا جرمن بادشاہ قیصر ویلہلم کے یروشلم کے دورے کی تاریخوں میں رکھی گئی۔دونوں کی مختصر بے نتیجہ ملاقات بھی ہوئی ۔البتہ صیہونی حلقوں میں اس ملاقات کے سبب ہرزل کی سیاسی اہمیت بڑھ گئی۔

ہرزل نے استنبول جا کر عثمانی بادشاہ سلطان عبدالحمید دوم کے سامنے بھی اپنا مقدمہ پیش کرنے کی کوشش کی۔مگر وہاں ہرزل کی ملاقات صرف وزیرِ اعظم ( گرینڈ وزیر ) سے ہو پائی جنھوں نے ہرزل کا نقطہِ نظر ہمدردی سے سنا مگر یہ کہتے ہوئے شائستگی سے انکار کر دیا کہ فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ ہے۔اہلِ یہود جب چاہیں زیارات کے لیے آ سکتے ہیں۔وہاں رہ بھی سکتے ہیں مگر مقامی عرب آبادی کبھی بھی برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی بیرونی طبقہ مستقل بنیادوں پر اپنی ایک خودمختار شناخت بنانے کی کوشش کرے۔

تاہم ہرزل نے ہمت نہ ہاری اور یورپ کے سب سے بارسوخ یہودی کاروباری خاندان روتھ چائلڈز کے ذریعے سلطنتِ برطانیہ کے ایوانوں میں لابنگ کی کوشش کی۔روتھ چائلڈز کا معاشی و سماجی اثر و رسوخ وزیرِ نوآبادیات جوزف چیمبرلین سے ہرزل کی ملاقات کا سبب بن گیا۔

ہرزل نے تجویز دی کہ یہودیوں کو قبرص یا صحراِ سینا دے دیا جائے۔چیمبرلین نے کہا کہ مصر پر برطانوی رسوخ باوجود وہاں کے پاشاؤں کو شاید اپنی آبادی کے ممکنہ ردِعمل کے خدشے کے پیشِ نظر یہ انتظام قبول نہ ہو۔یہی مشکل قبرص کی عیسائی اکثریت کی جانب سے بھی پیش آ سکتی ہے۔ البتہ یوگنڈا اور کینیا کی برطانوی نوآبادیوں کے درمیان پانچ ہزار مربع میل کا ایک ٹکڑا دینے پر غور ہو سکتا ہے۔( حالانکہ اس علاقے میں مسائی قبیلہ آباد تھا )۔

وہاں آپ کو آگے چل کر ( کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح ) سلطنتِ برطانیہ کی ڈومیننین کا درجہ بھی مل سکتا ہے۔

ہرزل کو ذاتی طور پر یہ تجویز بھلی لگی۔البتہ چیمبرلین نے یہ تجویز محض یہودیوں کی ہمدردی میں سامنے نہیں رکھی بلکہ اس کے پیچھے برطانوی نوآبادیاتی ذہن کارفرما تھا۔

روس اور مشرقی یورپ میں یہود مخالف تشدد کے نتیجے میں ہزاروں خاندان مغربی یورپ میں پناہ کے متمنی تھے۔چیمبرلین نہیں چاہتا تھا کہ اس غول کا رخ برطانیہ کی جانب ہو جائے جہاں مقامی مزدور پہلے ہی اپنی روزگاری صورتِ حال کے سبب بے چین تھے۔

چیمبرلین کو یہ بھی احساس تھا کہ اگر یہودیوں کو یوگنڈا میں بسایا جاتا ہے تو متمول برطانوی اور دیگر یورپی کاروباری یہودی یہاں سرمایہ کاری بھی کریں گے۔بالخصوص مشرقی افریقہ کے ریلوے منصوبے کے بھاری خسارے کو کم کیا جا سکے گا۔نیز روس اور مشرقی یورپ سے نکلنے والے یہودی برطانیہ عظمیٰ کے نہ صرف احسان مند رہیں گے بلکہ ان کی افرادی قوت اور یہودی بینکرز کے سرمائے سے جنوبی افریقہ میں جاری بوئر جنگ کے اخراجات میں بھی شاید مدد مل سکے۔

جب مشرقی افریقہ کے برطانوی گورے آباد کاروں کو اس منصوبے کی بھنک پڑی تو انھوں نے اور برطانیہ میں میڈیا کے ایک حصے نے اس منصوبے کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی۔

دوسری جانب جب ہرزل نے انیس سو تین میں منعقد ہونے والی چھٹی صیہونی کانفرنس میں یہ تجویز رکھی تو وہاں بغاوت ہو گئی اور اس منصوبے کو فلسطین میں بسنے کے صیہونی خواب سے غداری قرار دیا گیا۔ہرزل کو بادلِ نخواستہ اپنی تجویز واپس لینا پڑ گئی۔البتہ ہرزل نے یہ جملہ ضرور کہا ’’ ان لوگوں ( یہودیوں ) کی گردن میں رسہ پڑا ہوا ہے مگر یہ پھر بھی اکڑے ہوئے ہیں ‘‘۔

ہرزل کا خیال تھا کہ مشرقی یورپ میں جاری یہود مخالف لہر اور اس کے نتیجے میں دیگر ریاستوں کی جانب سے یہودی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے سے ہچکچاہٹ کے سبب یوگنڈا منصوبہ برا نہیں۔جب یہاں ایک نیم خود مختار ڈھانچہ بن جائے گا تو اس کی بنیاد پر برطانیہ عظمی کی مدد سے فلسطین کی بابت بھی بات ہو سکتی ہے۔

یورپی مدبروں کی طرح ہرزل بھی سلطنتِ عثمانیہ کے مردِ بیمار کا بتدریج اختتام دیکھ رہا تھا۔وہ یورپی سامراجی طاقتوں کی آپس کی رقابت اور ناگزیر ٹکراؤ کی خونی بو سونگھ رہا تھا اور اس ٹکراؤ کو صیہونی ایجنڈہ آگے بڑھانے کی سیڑھی سمجھ رہا تھا۔ مگر جو وہ دیکھ رہا تھا باقیوں کو نہ سمجھا سکا اور چند ماہ بعد تین جولائی انیس سو چار کو اس کا انتقال ہو گیا۔مگر اپنی مختصر چوالیس سالہ زندگی میں ہرزل نے ایک مملکت کے حصول کے جو عملی خدو خال وضع کر دیے۔بعد میں آنے والوں نے اس خاکے میں تندہی سے رنگ بھرے۔

انیس سو چودہ میں یورپ کی سامراجی طاقتیں آپس میں بھڑ گئیں۔صیہونی تحریک کے نقطہِ نظر سے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا۔سلطنتِ عثمانیہ ختم ہو گئی۔فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔اور انیس سو سترہ میں بالفور اعلان کے ذریعے اس مملکت کا دستاویزی سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا جس کا خواب ہرزل نے دیکھا تھا۔ ہرزل کیا چاہتا تھا اور اس کے جانشینوں نے اس تصویر کو مکمل کرنے کے لیے کون کون سے ہتھکنڈے استعمال کیے جن کے نتیجے میں صیہونیت ایک سفاک نسل پرست تحریک میں بدلتی چلی گئی۔اگلے مضمون میں اسے بھی دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں