پاک امریکا تجارتی تعلقات

ہم ہر سال امریکا سے تجارت کرتے ہوئے توازن کو اپنے حق میں رکھتے ہیں



نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا بھر سے تعلقات بہتر بنائیں گے۔ ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے لیے امریکا سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ شاید کوئی برس ایسا گزرا ہو جب پاکستان کی برآمدات امریکا کے لیے بہت زیادہ ہو اور پاکستان کے لیے امریکی درآمدات کی مالیت ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔

ہم ہر سال امریکا سے تجارت کرتے ہوئے توازن کو اپنے حق میں رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری بھی ہوتی رہی ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنا بہت کچھ ضایع کیا۔ ہزاروں جانیں گئیں، اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ امریکا سے ہمارے تعلقات کو اونچ نیچ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن باہمی تجارتی تعلقات ہمارے حق میں ہی رہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کے لیے امریکا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنا رہا۔ امریکا کے لیے ہماری برآمدات میں سالانہ اوسط اضافے کی بات کی جائے تو دس، گیارہ، بارہ فی صد تک رہی ہے۔ امریکا دنیا بھر سے تعلقات کو کس طرح سے بہتر بناتا ہے یہ اس کا معاملہ ہے لیکن ہم اپنی سیاسی و تجارتی شراکت داری کو کس طرح زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں یہ دونوں ممالک کا مشترکہ معاملہ ہے۔

2023 سے اب ہم 2024 اور مالی سال 2025 کے نصف گزارنے کے بعد بھی اسی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے ہماری برآمدات 5 ارب ڈالر سے بڑھتے بڑھتے اب 7 ارب ڈالر تک کا سفر طے کرنے والے ہیں لیکن نئے امریکی صدرکی آمد کے بعد اپنی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم، پاکستان کے وہ تاجر جو امریکا سے بہترین تجارتی تعلقات رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہماری برآمدات کی لاگت جوکہ گزشتہ دو دہائی سے اونچی اڑان کی زد میں آچکی ہے۔

امریکا کے لیے ہم اپنی برآمدات کا جائزہ لیں تو مالی سال 2024 کے جولائی تا جون 2024 تک پاکستان کی کل برآمدات میں امریکا کا حصہ 17.25 فی صد تھا اور اس سے گزشتہ مالی سال میں یہ حصہ 18.67 فی صد تھا۔ اب رقم کی بات کر لیتے ہیں تو جولائی تا جون 2023 تک پاکستان نے امریکا کو 12 کھرب 80 ارب ساڑھے 65 کروڑ روپے کی برآمدات کی تھیں اور اس سے اگلے برس جولائی تا جون 2024 کے دوران 14 کھرب 96 ارب ساڑھے 34 کروڑ روپے کی برآمدات رہی۔ اب دیکھتے ہیں کہ تجارت میں ہم کتنے فائدے میں رہے ہیں تو بات یہ ہے کہ جولائی تا جون 2023 کی بات ہے جب کل امپورٹ میں امریکا کا حصہ 3.97 فی صد تھا اور 5 کھرب 34 ارب 25 کروڑ روپے کی درآمدات اور گزشتہ مالی سال جولائی تا جون 2024 کے دوران پاکستان کی کل امپورٹ میں امریکا کا شیئر 2.62 فی صد تھا اور 4 کھرب 4 ارب 87 کروڑ20 لاکھ روپے کی درآمدات بنتی ہیں۔

بس آپ دیکھیں جب اس قسم کی صورت حال چل رہی ہو تو ہمیں تو اپنا سیاسی و تجارتی مفاد دیکھنا پڑے گا۔ ہم اپنے تجارتی اور سیاسی مفاد کو اولین ترجیح دیں،کیونکہ اب عالمی سیاسی معیشت میں امریکا کو اب بدلا ہوا دیکھیں گے۔ اب اس میں پاکستان اپنے سیاسی، تجارتی، دفاعی اور دیگر مفادات کو زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کرے گا۔

سب جانتے ہیں کہ بجلی کے نرخ جو ہم غریبوں کو جینے نہیں دے رہے اور تجارت کو پنپنے نہیں دے رہے، امریکا کے لیے ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات کا حصہ تقریباً نصف سے زیادہ رہا ہے۔ اب کئی سالوں سے آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات بھی بڑھنے کی طرف رواں دواں ہے۔ امید ہے کہ اس سیکٹر میں ہماری برآمدات اب ایک ارب ڈالر سے دو ارب ڈالر اور پھر اس سے بھی زائد کا سفر جلد طے کر لے گی۔

نئے صدر کی آمد کے بعد پاکستانی حکام کو اپنی توجہ اس جانب مرکوز کرنا ہوگی کہ ہم کس طرح سے امریکی ٹیکنالوجی، زراعت کے میدان میں امریکی جدت و فنی مہارت کے علاوہ ہمیں مستقبل کے لیے پاکستان میں پانی کے ذخائر کو زیادہ وسیع بنانے کے لیے ہم امریکی تعاون کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔پانی ہو، توانائی ہو، زراعت ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بہت سے شعبے ہیں کیا۔

ان میں ہم امریکی معاونت، امریکی سرمایہ کاری، امریکی تکنیک اور بہت کچھ پاکستان لا سکتے ہی۔ سب سے بڑھ کر ایسے معاملات جن کے ذریعے ہم اپنی زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں اور دنیا کو بھی فراہم کر سکیں اور امریکا کو بھی اپنی افرادی قوت برآمد کر سکیں۔ اس سے قبل امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے منگلا، تربیلا اور دیگر ڈیمز کے لیے بھی معاونت حاصل کر چکے ہیں، لیکن اب بھی نصف سے کم پاکستان کا علاقہ بنجر بھی ہے ریتیلا بھی ہے، ریگستانی بھی ہے اور بے انتہا زرعی مسائل ہیں۔ بے روزگاری بھی ہے جنھیں ہم نے حل کرنا ہے۔

پاکستان ہر سال سیلاب سے متاثر ہوتا ہے۔ ہزاروں گاؤں، دیہات، وہاں رہنے والے افراد، لاکھوں مال مویشی، لاکھوں مکانات یکایک ڈھیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے ہم نے اب تک کیا کوشش کی ہے؟ پاکستان نے بہت سے معاملات میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا اور بدلے میں بہت کچھ کھویا لیکن اب ہم امریکا سے کیا کچھ اور کس طرح سے حاصل کر سکتے ہیں۔ نئی انتظامیہ کے ساتھ معاملات کو کیسے طے کر سکتے ہیں۔ ان تمام تر معاملات کو اچھی طرح سے زیر غور لانے کی ضرورت ہے،کیونکہ امریکا بھی اب دنیا سے معاملات طے کرنے جا رہا ہے۔

پاکستان کو عالمی موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ یہاں پر ہم اس بات پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ دیگر ممالک کی طرف زیادہ توجہ دے کر اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں دنیا کے ہر ملک کے ساتھ اپنے تعلقات اور تجارت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اس وقت دنیا میں ڈالر کی برتری ابھی بھی موجود ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کی فوقیت اور اہمیت اپنی جگہ موجود ہے اور ہماری باہمی تجارت میں ہم فائدے میں ہی رہتے ہیں اور وہاں کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے ان سے استفادہ کرنا ہمارے نوجوانوں کا حق بھی ہے کہ ہم ان کے لیے کوشش کریں۔ دنیا کا ہر ملک سب سے پہلے اپنے مفاد کے بارے میں سوچتا ہے۔

اس پر عمل کرتا ہے، اس کے لیے کوشش کرتا ہے اور ہمیں ہر ملک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اپنی تجارت کو بڑھانے ان ممالک کی فنی استعداد سے خود کو فائدہ اٹھانے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں ان کی رہائی کے لیے بات کریں۔ امریکا سے تعلقات کو بہتر بنانے یا بڑھانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے مفادات کو پس پشت ڈال دیں۔ جیساکہ صدی کے آغاز میں ہم نے کیا۔ ہم جو کچھ بھی کریں صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد کے لیے کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں