تعلیمی پالیسیاں اور صوبہ سندھ میں طلبا و اساتذہ کا احتجاج
تعلیم کا عالمی دن چوبیس جنوری کو ہر سال منایا جاتا ہے۔ اس دن کے حوالے سے جہاں اخبارات میں کچھ خبریں شائع ہوئیں عین اسی روز کے اخبارات میں وزیراعلیٰ سندھ کا بیان بھی شائع ہوا جس میں وہ سندھ کی جامعات کے نئے قوانین لانے کی وجہ بتا رہے تھے کہ صوبے میں جامعات کے کچھ وائس چانسلرز مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں اور وہ پرانے قوانین کے باعث ایسے واٰئس چانسلرز کو عہدے سے ہٹا بھی نہیں سکتے، وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف نئے قوانین کے خلاف اساتذہ اور طلبا تنظیموں کی طرف سے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ تعلیم سے متعلق صوبائی پالیسیاں ہوں یا وفاق کی، کبھی ان پالیسیوں کے دور رس نتائج بھی سامنے آئے ہیں؟
اس سوال کا جائزہ لیا جائے تو جواب نفی میں ہی نظر آتا ہے اور اس کی دو قسم کی وجوہات نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک وجہ سیاسی بنیاد پر اساتذہ کی تقرریاں اور دوسری وہ تقرریاں جو تعلیمی پالیسی بنانے والوں سے متعلق ہوتی ہیں۔ یہ راز پوشیدہ نہیں کہ اسکولوں کی سطح پر اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوتی ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں ان ہی اساتذہ سے پولنگ سے متعلق خدمات لی جاتی ہیں۔ گویا اس قسم کے اساتذہ اپنی تقریری کی قیمت یا سیاسی جماعتوں سے اپنی قربت کی قیمت چکاتے ہیں یعنی وفاداری نبھاتے ہیں۔
دوسری اہم وجہ ہماری پالیسی بنانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بڑی سفارش کی وجہ سے ان عہدوں پر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا اثر و رسوخ سیاسی بھی ہوتا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کا تعلق اعلیٰ طبقہ سے ہوتا ہے اور یہ خود بھی بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ یوں ان کو عموماً اس ملک کے تعلیمی مسائل کا بھی ادراک نہیں ہوتا اور اس ملک و معاشرے کے مسائل کا بھی درست طور پر علم نہیں ہوتا۔ چنانچہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسا انھوں نے بیرون ملک کا نظام دیکھا ہے ویسا ہہ اس ملک میں تجربہ کیا جائے یا اپنی مرضی سے کوئی نیا تجربہ کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تعلیمی پالیسیوں میں نت نئے تجربات کیے جاتے رہے ہیں مگر آج تک ان کا اس ملک اور قوم کو فائدہ نہیں ہوا۔
مثلاً 1999 میں کراچی کے طلبا احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جب وہ پہلے ہی انٹر کا امتحان پاس کرچکے ہیں تو پھر میڈیکل میں داخلے کےلیے دوبارہ ٹیسٹ کیوں دیں؟ راقم نے اس وقت ایک بڑے اخبار میں اس پر کالم لکھا تھا کہ طلبا کا موقف درست ہے، اگر ٹیسٹ لینا ہے تو صرف انٹری ٹیسٹ لینا چاہیے اور پھر داخلے میرٹ پر ہی ہونے چاہئیں اور اگر انٹر بورڈ میں بدعنوانی ہے تو اس کو ختم کریں نہ کہ طلبا کو مزید خرچے اور پریشانی سے دوچار کریں۔( واضح رہے کہ اس کے بعد شہر میں ٹیسٹ کی تیاری کرانے والے کوچنگ سینٹر منظر عام پر آگئے اور کچھ تو اس قدر مشہور ہوگئے کہ اگر ان کے ہاں سے تیاری کی جائے تو ٹیسٹ میں کامیابی سو فیصد ہے، یہ سینٹر بھاری فیس لینے لگے اور ایک نیا کاروبار کھل گیا)۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایچ ای سی کے مختلف سربراہ آئے اور گئے مگر اس ادارے کی پالیسیوں سے کوئی بڑا فائدہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مثلاً ایچ ای سی کی جانب سے آنرز کے پروگرام کو بہتر کرنے کے ’بی ایس‘ نام کی ڈگری متعارف کرائی گئی اور کسی حد تک نصاب میں بھی تبدیلیاں کی گئیں، مگریہ ہمارے ملکی کلچر سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ یہ ترقی یافتہ ممالک کی نقل تھی لہٰذا جب طلبا بی ایس کی ڈگری کانام اپنے سی وی میں لکھ کر کسی ادارے بھیجتے تو کوئی ادارہ انھیں انٹرویو کے لیے نہیں بلاتا کہ ان کی ڈگری (بی ایس) بیچلر کی ڈگری ہے۔ ملازمت فراہم کرنے والوں کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ اب جامعات میں آنرز کی ڈگری کی جگہ بی ایس کی ڈگری دی جارہی ہے۔ اس بحران کے بعد جامعہ کراچی نے اپنے طلبا کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو بی ایس کی ڈگری لے لیں یا آنرز کی۔
اس خراب تجربے کے باوجود ایک اور نئی پالیسی میں کالجز اور پرائیویٹ کی بی اے، ایم اے وغیرہ ڈگریوں کے نام بھی تبدیل کردیے گئے جس سے کنفیوژن پھیلا اور جامعہ کراچی جیسے یونیورسٹی میں طلبا کی رجسٹریشن بھی کم ہوگئی۔ اسی طرح کبھی سیدے سادھے گریڈ سسٹم کو چھیڑ کر نیا نام ’جی پی اے‘ دے دیا گیا، حالانکہ امتحان میں حاصل کردہ نمبروں سے کسی بھی طالب علم کی شرح فیصد پتہ چل جاتی ہے کہ اس کی کارکردگی کیا ہے۔
اسی طرح سے ریسرچ کے نام کو ہمارے اعلیٰ تعلیمی نظام پر اس قدر حاوی کردیا گیا ہے کہ اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہورہا ہے۔ مثلاً جامعات میں اساتذہ کی ترقی (پروموشن) کو بلاوجہ ریسرچ پیپر سے نتھی کردیا گیا ہے۔ ایک اسسٹنٹ پروفیسر مقررہ تجربے کے علاوہ کم ازکم گیارہ ریسرچ پیپر لکھ کر شائع کرائے تو وہ اپنے پروموشن کےلیے انٹرویو میں بیٹھنے کا اہل ہوگا اور اگر وہ ریسرچ پیپر مطلوبہ تعداد میں شائع نہیں کراسکا تو ریٹائرمنٹ تک اس کا پروموشن نہیں ہوگا، چاہے اس کا تدریس وغیرہ کا بیس سال سے بھی زائد کا تجربہ کیوں نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جامعات کے بہت سے شعبے ایسے ہیں کہ جہاں ریسرچ کا نصاب دس فیصد بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثلاً میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے نوے فیصد کے قریب کورسز ریسرچ سے تعلق ہی نہیں رکھتے اور اساتذہ ہی یہ نوے فیصد والے کورسز پڑھاتے ہیں اور وہ ’سبجیکٹ اسپیشلسٹ‘ بھی ہوتے ہیں۔ یوں جامعات میں رائج پروموشن پالیسی میں ایسے اساتذہ کا کوئی ذکر نہیں۔ یعنی ایسے اساتذہ کو بھی اگر پروموشن چاہیے تو بلاوجہ، زبردستی ریسرچ کرنا پڑے گی ورنہ پروموشن نہیں ہوگا۔
بجائے اس کے کہ جامعات کے اساتذہ کے یہ مسئلے حل ہوتے، مثلاً ان کو تجربے کی بنیاد پر بھی پرموشن دیا جاتا جیسا کہ جامعات میں ہی تعینات کسی کلرک کو تجربے کی بنیاد پر ’ٹائم پے اسکیل‘ کے قانون کے تحت اگلے گریڈ میں ترقی دی جاتی ہے، الٹا سندھ حکومت کی جانب سے حال ہی میں ایک نیا قانون متعارف کرادیا گیا جس کے تحت کئی تبدیلیاں ہونی ہیں۔ جیسے اس قانون کے تحت اب جامعات کا جو بھی استاد تمام شرائط پوری کرکے اور انٹرویو (سیلکشن بورڈ) سے کامیاب ہوجائے گا اس کا نیا اپائنمنٹ تصور کیا جائے گا اور اس پر تمام نئی شرائط لا گو ہوں گی، یعنی اس کی مستقل ملازمت اب کنٹریکٹ پر تبدیل ہوجائے گی۔ گویا جس نے سبق یاد کیا اس کی ہی چھٹی بند۔
اسی طرح سے وائس چانسلرز کی تقرریوں کےلیے پی ایچ ڈی کی شرط ختم کردی گئی ہے۔ حالانکہ اصول تو یہ بنتا ہےکہ اگر کوئی وائس چانسلر کرپشن کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کرپشن کو روکنے کےلیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ یوں سندھ کے تعلیمی اداروں میں اس نئے قانون کے حوالے سے بے چینی پھیل گئی ہے اور اساتذہ ہی نہیں طلبا بھی احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے سرکاری جامعات تباہ ہوجائیں گی، جبکہ نجی جامعات کو فروغ حاصل ہوگا۔ نتیجے میں مڈل کلاس طبقے کےلیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔
راقم کی تمام ذمے داران سے گزارش ہے کہ خدارا تعلیم اور تعلیمی اداروں کی پالیسیاں سوچ سمجھ کر بنائیں۔ اساتذہ ہی اس ملک کے نوجوانوں کو ملک کا معمار بناتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔