انسان ہو یا قوم، اپنی ترجیحات سے مسقبل کا تعین کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات جیتنے کے بعد پاکستانی میڈیا اور سیاست پر پاک امریکا اسٹریٹجک تعلقات میں ممکنہ نشیب وفراز اور امکانات کا ذکر تو خال خال ہی رہا تاہم سیاسی میدان میں خوب رونق لگی رہی۔ امریکا میں پی ٹی آئی کے بہی خواہوں نے اس دوران کئی ارکان کانگریس سے بانی پی ٹی آئی کے حق میں اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تشویش کے بیانات دلوا کر سیاسی بحث و تمحیص پر غلبہ قائم رکھا۔ دوسری طرف حکومت دفاعی پوزیشن پر نظر آئی۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے یہ تاثر بہت کامیابی سے قائم کر کیا کہ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھایا اور ادھر انھوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کے لیے اڈیالہ جیل کے دروازے کھلوانے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کرنی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر حلف برداری کے فوراً بعد امریکا میں پی ٹی آئی کے ارکان نے کیپیٹل ہل میں چند ارکان کانگریس سے پی ٹی آئی کے حق میں بیانات دلوا کر کامیاب لابنگ کو جاری رکھا۔ دوسری طرف پاکستان کی نمائندگی کے لیے، واشنگٹن آئے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی دو تین ارکان کے ساتھ ناشتہ کیا اور تصاویر بھی پوسٹ کیں۔
پاک امریکا تعلقات کے ضمن میں مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر حسب معمول مقابلہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تناظر ہی میں برپا رہا۔ یہ پس منظر واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے حوالے سے ممالک اپنی اپنی ترجیحات کو نئے سرے سے ترتیب دینے اور صدر ٹرمپ کے ممکنہ پالیسی فیصلوں کے اثرات پر غور و فکر اور تیاری میں مصروف ہیں جب کہ ہمارے ہاں یہ بحث زیادہ تر پی ٹی آئی اور حکومت کی سیاسی کھینچاتانی تک ہی مرکوز رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک سیمینار میں سابق پاکستانی سفارتکاروں نے پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کئی خدشات کا اظہار کیا۔ انھیں اندیشہ ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت کے دوران پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون محدود رہے گا۔
امریکا کی خارجہ پالیسی میں چائنہ اور انڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان ٹریڈوار کے علاوہ جیواسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل معاملات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکا بھارت کو چین کے اثر و نفوذ کے ’’توڑ‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکا پاکستان کو بہت حد تک چین کے ساتھ امریکی تعلقات کی عینک سے دیکھتا ہے جو پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
انڈو پیسفک خطے میں برتری قائم رکھنے کے لیے امریکا نے کواڈ (QUAD) نامی اتحاد میں بھارت کو شامل کیا ہے۔ خطے میں امریکا کے مفادات اور اسٹریٹجک دلچسپی کو بھارت نے چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف جدید ترین ملٹری ہتھیار حاصل کیے بلکہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کیا۔ اس کا واضح ثبوت بھارت کا کواڈ کے علاوہ دیگر اہم علاقائی معاہدوں میں شریک کار ہونا ہے جن میں COMCASA, LEMOA , BECA شامل ہیں۔
دوسری طرف پاک امریکا تعلقات میں کئی رخنے بدستور چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کے دوران پاک امریکا تعلقات میں قریبی تعاون رہا تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو ہمیشہ تشویش کی نظر سے دیکھا ہے۔
پاکستان کے میزائل پروگرام پر بھی اس نے اپنی ناخوشی کا اظہار بار بار کیا۔ چند ہفتے قبل پاکستان کی چند کمپنیوں پر امریکا نے پابندیاں بھی عائد کیں۔ بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں پاک بھارت تعلقات اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی سطح پر ہیں جب کہ پاک امریکا تعلقات پر سرد وگرم کا موسم چل رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے فوراً بعد سیکریٹری آف اسٹیٹ مارک روبیو نے دفتر میں پہلے دن بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات کی جس سے امریکا کی ترجیحات کا صاف اظہار ہوتا ہے۔ خبروں کے مطابق سفارتی سطح پر سرتوڑ کوششیں جاری ہیں کہ فروری میں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کی ملاقات کا اہتمام کیا جا سکے۔
بھارت اور امریکا کے سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ امریکا میں بھارت نژاد امریکیوں کا اثر ونفوذ امریکا کی سیاست اور قیادت میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت موثر انداز میں پھلا پھولا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں بھی بھارتی اثر ونفوذ قابل ذکر ہے۔
نئے امریکی نائب صدر کی اہلیہ اوشا وانس بھارت نژاد امریکی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں شامل ویوک رام سوامی بھی بھارت نژاد ہیں۔ تقریب حلف برداری میں دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیز کے سی ای اوز میں بھی گوگل کے سی ای او بھارت نژاد ہونے کے ناطے نمایاں تھے۔ امریکی سیاست اور کاروبار میں بھارت کا یہ اثرو نفوذ اب ایک نئی حقیقت ہے۔
ایسا نہیں کہ بھارت اور امریکا کے تعلقات میں ہر چہ باداباد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور میں اٹھائے گئے کئی اقدامات کا اثر براہ راست بھارت کے مفادات پر بھی ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے برتھ رائٹ کے قانون کو ختم کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا ہے۔ بھارت کے ہاں کافی عرصے سے برتھ ٹورزم امریکی شہریت حاصل کرنے کا آسان راستہ رہا ہے۔
اس قانون کے خاتمے کے بعد بھارتی کمیونٹی میں تشویش ہے۔ امریکا کے ایچ ون بی کیٹیگری کے ویزوں میں سب سے زیادہ حصہ بھارت حاصل کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں ایچ ون بی ویزوں کو محدود کرنے کی پالیسی پر بھی بھارت کو شدید تشویش ہے۔ غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں کو بزور ڈی پورٹ کرنے کے سلسلے میں بھی بھارت کے ہزاروں تارکین وطن زد میں آئیں گے۔
ایک طرف بھارت اور امریکا کے تعلقات میں اسٹریٹجک تعاون وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے، ان تعلقات کو بھارت سفارت اور تجارت میں اپنے فائدے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔
دوسری طرف پاک امریکا تعلقات میں امریکی مفادات، ترجیحات اور ضروریات بدلنے کے ساتھ ہی پاک امریکا تعلقات میں اتار چڑھاؤ در آتا ہے۔ عوامی سطح پر پاک امریکا تعلقات میں تجارتی اور صنعتی تعاون کی بجائے صرف اور صرف ملکی سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بھرپور کھینچاتانی فخریہ طور پر جاری ہے۔ یہی فرق یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ قومیں اپنی ترجیحات سے اپنا مقدر طے کرتی ہے۔