ریڈ کیفے کا مہدی

ترقی پسند سوچ کے طلبہ نے صدر کے ’’کیفے جہان‘‘اور ناظم آباد کے ’’کیفے لارڈ‘‘ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ٹھکانہ بنایا


وارث رضا January 26, 2025

 جنرل ایوب نے جب اپنے جبر کے بل بوتے پر کراچی کی طلبہ تحریک کے اہم مورچے ناظم آباد کے ’’کیفے الحسن‘‘کی طلبہ سیاست کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ترقی پسند سوچ کے طلبہ نے صدر کے ’’کیفے جہان‘‘اور ناظم آباد کے ’’کیفے لارڈ‘‘ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا ٹھکانہ بنالیا، جب طلبہ کی سرگرمیوں کو تمام تر ریاستی جبر کے باوجود نہ روکا جا سکا تو کیفے لارڈز کو ’’ریڈ کیفے‘‘ کے نام سے دوبارہ ترقی پسند دوستوں کی بیٹھک کے نام سے زندہ کیا گیا۔ریڈ کیفے کی رونقوں کی آبیاری میں ترقی پسند ادب اور اس کے تحریکی عمل میں پیش پیش اصغر مہدی نظمی ہی رہے۔

ہر جمعرات کو طے تھا کہ مہدی نظمی جھمپیر ڈملوٹی سے کراچی آئیں گے اور مجھ سمیت آرٹسٹ لیاقت حسین کی ذمے داری تھی کہ ہم دوستوں کی آمد کو یقینی بنائیں گے،جس میں ذکی عثمانی، ڈاکٹر مظہر حیدر، حسن عابد، محمد علی صدیقی،رضی مجتبیٰ، عزیز حامد مدنی، قمر جمیل، احمد ہمیش و دیگر دوست گاہے گاہے ریڈ کیفے کی سرگرمیوں کو آباد رکھیں گے، اس ذمے داری سے وہ کبھی غافل نہ رہے ، اس سب کے باوجود مجال جو مہدی نظمی نے اپنے وقت اور کراچی آمد پر کوئی سمجھوتا کیا ہو، مہدی نظمی کی سرکردگی میں ریڈ کیفے پر شام کو سجنے والی یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی اور یوں سب اپنی پھٹپھٹیا پر گھر کو سدھارتے۔

 جہاں ریڈ کیفے کی اس محفل میں ادبی محاسن پر گفتگو رہتی، وہیں سیاست میں در آنے والی تنگ نظری اور لسانیت پر کراچی کے سیاسی و تہذیبی ماحول کو برباد کرنے پر بھی کف افسوس ہوا کرتا تھا، اس محفل میں جلد جدا ہو جانے والے افسانہ نگار قمر عباس ندیم کی ادبی اور طلبہ سیاست اہم موضوع ہوا کرتی، مہدی نظمی کی استقامت نے ہمیشہ دوستوں کے حوصلوں کو جلا بخشی اور باہمت کیا، سفر کی تکان کے باوجود مہدی نظمی کی خوش دلی اور تازگی کبھی نہ مرجھائی نہ کبھی رات واپسی کے خوف نے مہدی نظمی کے پائے استقامت میں لغزش آنے دی اور ہر جمعرات کی یہ ادبی و سیاسی بیٹھک برسہا برس جاری رہی۔
 یہ وہ زمانہ تھا جب مہدی نظمی اپنے کنبے کے ساتھ بفرزون میں رہا کرتے تھے اور اپنے بڑے بیٹے وقار مہدی کے سیاسی طور سے متحرک ہونے پر نہ صرف مطمئن بلکہ فاخر بھی ہوتے تھے انھیں اطمینان تھا کہ کم از کم ان کا وقار سیاسی طور سے جمہوریت پسند اور ایک باشعور سیاسی طالبعلم تھا ، مہدی نظمی نوجوان نسل اور خاص طور پر طلبہ کی تعلیم میں تشدد پسند ماحول پر ہمیشہ دل گرفتہ رہتے تھے تو دوسری جانب وہ وقار مہدی کی سیاسی و جمہوری فکر پر کسی حد تک مطمئن بھی تھے یہی وجہ رہی کہ مہدی نظمی کی عوام دوست اور مزدور دوست سوچ کے زیر اثر وقار نے ٹریڈ یونین سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور تمام طبقات سے رابطے میں رہنے کے علاوہ مختلف طبقہ ہائے فکر کے جمہوریت پسند دوستوں کے ساتھ رابطوں میں رہنے کو ترجیح دی۔

مجھے کبھی کبھی وقار مہدی کی خاموش طبع طبیعت میں مہدی نظمی جھلکتے دکھائی دیتے ہیں، مہدی نظمی نے ہمیشہ اپنی شاعری میں سماج کے المیوں اور انسانی آزادی کے ترقی پسند نظریے کا واضح اظہار کیا اور ہمیشہ آمرانہ ذہن کے سامنے شمشیر ننگ بنے رہے، مہدی نظمی کے مزاج اور خاموش طبعی کو یوں بیان کرنا زیادہ بہتر ہے کہ ’’جب مہدی نظمی کے مقابل کوئی پوری طرح کھلتا نہیں تھا وہ اس شخص سے گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ اگر محفل میں کسی نے درست اردو کی ادائیگی نہ کی تو سمجھئے کہ مہدی نظمی اس سے گفتگو نہیں کریں گے۔

 اپنی سوچ اور مزاج میں کھرے ہونے کی بنا پر ہم تین یعنی لیاقت حسین، مہدی نظمی اور میں ہر صورت ہر جمعرات ملتے اور ایک دوسرے سے ہر طرح کی گفتگو کرتے تھے،مہدی نظمی کی یاد میں اس کالم کے لکھنے کی بنیادی وجہ مہدی نظمی کی سخن ور روح کا ان کے پوتے سجاد مہدی میں حلول کر جانا ہے ،یعنی مہدی کا پورا کنبہ تہذیب و شائستگی کا نشان بنا ہوا ہے۔
 یہ جان کر میری خوشی دو چند ہو گئی کہ مہدی نظمی کے کلام اور نگارشات کا وارث سجاد کی سی صورت گھر ہی میں موجود ہے اور دادا کے تمام کلام کی کلیات مرتب کرنے کی تگ و دو میں جتا ہوا ہے، اب آپ بتائیے کہ ایسا پوتا دادی کا نازنین اور جنم دینے والی ماں کا جاں نثار ہی تو ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ تہذیب کے نشان کے طور سجاد باپ سمیت سب کا وقار بھی ہو.
چلتے چلتے یاد آیا کہ مہدی نظمی آمر ضیا کے شدید ناقد اور ضیا کی تنگ نظر مذہبی اور شدت پسند لسانی تقسیم کے ساتھ طلبہ سیاست پر پابندی کے شدید مخالف تھے،مہدی نظمی کا نکتہ نظر تھا کہ طلبہ سیاست ہی سماج میں درگزر، تہذیب و شائستگی کا ذریعہ ہوا کرتی ہے اور طلبہ سیاست پر پابندی دراصل سماج کی سیاسی اور سماجی پیش رفت کو روکنا ہے جس کے نتیجے میں سماج بانجھ ہو جاتا ہے اور طلبہ یونین پر پابندی کے بعد یہ ہوا کہ آج تک سماج کی قدریں بے چین روح کی طرح بھٹک رہی ہیں۔

سینیٹر مسرور احسن کی طرح وقار مہدی کو بھی طلبہ سیاست کی بحالی کے لیے سینیٹ میں بھرپور آواز اٹھانی ہوگی اور سندھ حکومت کو سمجھانا ہوگا کہ وہ جامعات کے تعلیمی نظام میں نوکر شاہی کے نمائندوں کی سرکاری تعیناتی سے باز رہے تاکہ آمرانہ نظام کی باقیات کا نکالا ہمیشہ کے لیے کیا جا سکے کہ یہی مہدی نظمی کی سوچ کی کامیابی ہوگی اور یہی کوشش ایک بہتر سیاسی سماج کی بنیاد فراہم کرنے کا باوقار انداز ہو گا۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں