’’ کُن‘‘ کا انتظار کریں

یہ کوئی بہت دور نہیں بلکہ پچھلے برس مارچ کا واقعہ ہے جب دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک جادوگر کو گرفتار کیا گیا تھا


شہلا اعجاز January 26, 2025

یہ کوئی بہت دور نہیں بلکہ پچھلے برس مارچ کا واقعہ ہے جب دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک جادوگر کو گرفتار کیا گیا تھا جو ایک افریقی ملک سے پہنچا تھا، اس کے سامان میں مشکوک اشیا نے کسٹمز کے عملے کو حیرانی اور تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ دراصل اس سے برآمد ہونے والے سامان میں زندہ سانپ جو ایک پلاسٹک کے ڈبے میں تھا، اس کے علاوہ بندر کا ہاتھ، مردہ پرندے اور جادو ٹونے سے وابستہ کئی اشیا تھیں۔

عملے کے سوال جواب کرنے پر اس نے اقرار کیا کہ وہ جادوگر ہے اور اس کے پاس موجود اشیا جادو ٹونے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔  ہمارے یہاں جادو ٹونے کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں، یہاں تک کہ سیاسی حوالوں سے بھی جادو ٹونوں کی صدائیں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں نے اتنے جانور جلائے کوئی معصوم بچوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ بلی چڑھا دیے گئے۔

 یہ ساری صورت حال گزشتہ کئی برسوں سے خبروں میں خاصی سرگرم رہی، سوشل میڈیا بھی خاصے مستعد رہے گو چٹپٹی خبروں میں لذت بہت ہوتی ہے لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت انسان گمان میں ہی رہتا ہے، اسے تو صرف اچھا اور بہت اچھا چاہیے وہ بھی اپنی خواہشات کے عین مطابق۔سڑکوں کے ارد گرد، دیواروں پر ، بس اسٹاپ یا مسافر بس میں اونگھتے مسافروں کی گود میں اسی طرح کے جادو ٹونے کرنے والوں کے اشتہارات چسپاں ہوتے ہیں یا گرا دیے جاتے ہیں۔

پرکشش عبارت اپنی جانب کھینچتی ہے جس میں محبوب کو قدموں تلے بٹھانے کی خواہش سب سے اوپر ہوتی ہے۔ کیا ایسے جادوگرکیا واقعی اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کے سحر سے دنیا اِدھر سے اُدھر ہو سکتی ہے؟ سنا ہے بنگال کا جادو سب سے زیادہ مشہور و مقبول تھا اور اس کا جادو تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

ذرا ماضی میں جائیں اور غور کریں جب انگریز نے برصغیر پر اپنا قبضہ جمایا تھا تو بنگال کا کیا حال تھا، کیا بنگال کے جادوگروں نے انگریزوں کی لوٹ مار پر اپنے جادو ٹونوں کو آزمایا نہ تھا؟ تاریخ گواہ ہے کہ بنگال سب سے زیادہ امیر اور زرخیز علاقہ تھا جہاں سے لوٹ مار کر کے ایک عام فرنگی نواب بن بیٹھا تھا۔

بنگال کا جادو خاموش تھا کچھ کام نہ کرسکا تھا، پرکیوں؟ہم دو دفعہ گرتے ہیں تو لگتا ہے کہ شاید کسی نے کچھ کروا دیا اور تیسری دفعہ گرتے ہی ذہن اشارہ دیتا ہے کہ اب تو پکا کسی نے جادو ٹونہ کروایا ہے، اب بچنے کی کریں اور اس وہم کو ذہن میں سمیٹ کر رکھتے ہی جیسے ایک کے بعد ایک اس طرح ہوتا چلا جاتا ہے کہ ہمارا وہم تقویت پاتے پاتے تناور درخت بن جاتا ہے۔

سارا کاروبار ٹھپ ہو گیا، بچے نہیں ہوئے پتا نہیں کیا کرا دیا کسی نے کہ ہوتے ہی مر جاتے تھے، اس قدر محنت کی، پر فیل ہو گئے، دماغ جیسے بندھ جاتا تھا امتحانی ہال میں جاتے ہی، اس قدر خوب صورت لڑکی، شادی کیوں نہیں ہوئی، یقینا کسی نے کچھ کرا دیا۔

ان واہمات کے در پردہ کوئی نہ کوئی سرا بھی نکل ہی آتا ہے۔ میرا اپنا دوست تھا، بس جل گیا تھا میری کامیابی سے، میری نند تھی، پڑوسن تھی، غرض جتنے رشتے ناتے سب فہرست میں شامل ہوتے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟ تو ایک عمومی جواب ہے کہ بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ جادو کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے جادوگروں کے مابین مقابلہ ہوا تھا اور جیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہوئی تھی۔

 اتنا بڑا واقعہ واضح طور پر سمجھاتا ہے کہ ہر عمل کے لیے انسان اللہ کے حکم کا پابند ہے، بالکل اسی طرح یہ بھی طے ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا برا چاہنے کی وجہ سے اس پر جادو کرواتا ہے اور دوسرا شخص اس کے جادو کے زیر اثر آ کر اس کے تابع یا خواہشات کے مطابق عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جادو سب سے سپریم طاقت ہے بلکہ قدرت کی جانب سے اسے اوکے کر دیا گیا ہے اور یوں مسحور شخص قدرت کے لکھے کے تحت جادو کے اثر میںکبھی اپنا کاروبار ٹھپ ہوتے دیکھتا ہے۔

کبھی اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر برباد کر لیتا ہے یا سودا خراب کر لیتا ہے۔ یوں اس کی تقدیر کا لکھا پورا ہو تا ہے جب کہ جادو کرانے والا اپنے ہاتھ ایک صریح گناہ سے رنگ لیتا ہے اور وہ بھی اس طرح اپنی تقدیر کے لکھے کے باعث مجبور ہو جاتا ہے، کبھی جذبات میں تو کبھی دل کے ہاتھوں۔کیا سب پر جادو اثرکرتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جادو صرف انھی لوگوں پر اثر کرتا ہے جن کے لیے حکم ہوتا ہے، ورنہ نہیں ہوتا۔

قرآن میں سورہ بقرہ میں بڑی تفصیل اور وضاحت سے اس کے لیے تحریر ہے، تو بس یہ تو واضح ہے کہ انسان کے لیے جو مکتوب ہے وہ ہوکر رہتا ہے، یعنی اگر بندے کی تقدیر میں سیڑھی سے گرنا ہے تو ہے، پر اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنے سے انسان گرتا بھی ہے اور سنبھل بھی جاتا ہے یعنی اسے چوٹ نہیں لگتی۔ شیاطین آسمان میں فرشتوں کی باتوں پرکان لگائے رکھتے ہیں لہٰذا وہ ان باتوں کو بہت برے انداز میں پیش کرتے ہیں۔

 مثلاً بچہ تجھ پرکوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے، اب وہ مصیبت چاہے بجلی، گیس کا بل ہو یا نزلہ زکام کا ہونا، دراصل شکر ادا کرتے رہنے سے آزمائش ہلکی ہو جاتی ہے پر ایمان کمزور ہو تو یہ سزا بن کر حواس پر طاری رہتی ہے اور نقصان بھی ہوتا ہے جو گلے شکوے بن کر انسان کے نصیب کا حصہ بن جاتا ہے۔حواس کو کنٹرول کرنا بھی نفسیات سے کھیلنا اور اپنے موکلوں کے ذریعے کھلانا بھی جادو ہے۔

آج کل کے افراتفری کے دور میں لوگوں کے پاس یوں تو بظاہر وقت نہیں ہے لیکن شیطانی چالوں میں الجھنے کے لیے بہت فرصت ہے۔ حسد، جلن، رقابت، مقابلے کی دوڑ، جیت کا نشہ، کرسی کا سرور، یہ سب اور نہ جانے کیا کیا الجھنیں جو انسان اپنے نفس کے گھوڑے پر سوار دوڑے چلا جاتا ہے اور ان کو سلجھانے میں جادو ٹونے اور شعبدہ بازوں کے چکروں میں الجھ جاتا ہے۔

مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم بہت آسانی سے اپنے مسائل سے نکلنے کی کوشش کر سکتے ہیں، ہماری الجھنیں، مسائل اور پریشانیاں، رکاوٹیں رب العزت کے حکم کی پابند ہیں، لہٰذا ہمارا یہ سمجھ لینا کہ فلاں کا جادو تو سر چڑھ کر بولتا ہے، اس کے جادو کا توڑ نہیں، حماقت ہے جسے انسان اپنی کم علمی میں خود خریدتا ہے۔

اپنے دلوں سے حسد، رقابت، جلن، کینہ اور عداوت کے پردے ہٹائیں اور رب العزت سے اپنا کنکشن جوڑ لیں پھر محبوب چاہے قدموں میں بیٹھے یا کھڑا رہے اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپنا ایمان مضبوط کریں، کنکشن کو مضبوط کریں تو سارے جادو بے اثر ہیں کہ ساری دنیا پر صرف ایک ہی ذات کا حکم چلتا ہے جو کہہ دیتا ہے ’’کُن‘‘ تو ہو جاتا ہے، بس صبر اور صدق دل سے اس کے ’’کُن‘‘ کے منتظر رہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں