بے لوث بے خوف

    جاوید مزاج کا دھیما آدمی تھا جو کبھی سختی یا بد اخلاقی سے بات کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔


[email protected]

    جاوید شہزاد کو دیکھا تو اپنے ایک استاد یاد آئے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، استاد محترم پروفیسر متین الرحمن مرتضی فرمایا کرتے تھے کہ صحافی ایک خاص قسم کی ناک لے کر پیدا ہوتا ہے جسے خبر کی بو دور سے ہی آ جاتی ہے۔ جاوید شہزاد اسی قسم کی ناک رکھتا تھا۔ صحافت کے نام پر صحافت کی بے حرمتی کے اس عہد میں اس خوبی نے مجھے سرشار کیا اور میں نے اپنے اس احساس کا ذکر برادر عزیز ارشد ملک سے کیا۔ ارشد اور جاوید شہزاد کو لنگوٹیا یار کہنا تو معلوم نہیں درست ہو گا یا نہیں لیکن ہیں یہ دونوں لڑکپن کے دوست۔ صحافت کی پرخار وادی میں بھی یہ دونوں کم و بیش ایک ساتھ ہی داخل ہوئے۔ یوں جاوید شہزاد کے بارے میں ارشد ملک کی گواہی معتبر ہے۔

    ہمارے سماج میں سرکاری ملازمت ایک طرح کی کلغی ہے جسے لگ جائے، وہ پھولا نہیں سماتا۔ جاوید شہزاد خوش قسمت تھا کہ اوائل عمری میں ہی اس منزل کو سر کرنے میں وہ کام یاب ہو گیا تھا۔ اسے حکومت پنجاب کے محکمہ اطلاعات میں ایک معقول اور عزت دار ملازت میسر آ گئی تھی۔ ایک محنت کش گھرانے کے بڑے بیٹے کو ایسی ملازمت میسر آ جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں لیکن جاوید جس مزاج کے ساتھ پیدا ہوا تھا، یہ اس کے لیے کافی نہیں تھا۔ خبر اسے اپنی جانب کھینچتی تھی اور وہ خبر کی طرف لپکتا تھا۔ اس پریشانی کا ایک حل تو اس نے یہ نکالا کہ دن بھر وہ سرکار کا فائل بھرتا۔ اس کام سے فارغ ہو جاتا تو رپورٹر بن جاتا۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں پاکستان میں نیوز ایجنسیاں پھلی پھولیں جنھوں نے صحافت کے شعبے میں انگریزی کی بالادستی کا خاتمہ کر دیا اور صحافیوں کی ایک نئی نسل تیار کی۔ جاوید شہزاد اسی نسل کا نمائندہ تھا۔ اس نے کسی نیوز ایجنسی میں تقریبا رضا کارانہ طور پر خدمات انجام دینی شروع کر دیں۔ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ سرکار کی ملازمت اور صحافت پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتے۔ محبت آپ کو ایک جانب بلائے اور روزگار اپنی جانب کھینچنے تو فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ معمولی لوگ کبھی فیصلہ نہیں کر پاتے اور چکی کے دو پاٹوں کے پیچ پستے رہتے ہیں جب کہ غیر معمولی لوگ جرات مندی کے ساتھ فیصلہ کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ جاوید دوسری طرح کا آدمی تھا جس نے ذرا سا سوچا پھر فیصلہ کر کے ایک طرف ہو گیا یعنی خالص صحافی بن گیا۔

    جاوید نے اپنے صحافتی کیریئر میں بے شمار خبریں بریک کیں۔ صرف ان خبروں کو ہی جمع کر لیا جائے تو نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کی تاریخ کو مصدقہ مواد میسر آ جائے گا۔ افغانستان میں جن دنوں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی تھیں، افغان راہ نما وعدے کرتے اور توڑتے رہتے تھے، یہ اسی زمانے کی بات ہے، گل بدین حکمت یار اچانک راول پنڈی آن پہنچے۔ یہ دورہ تقریباً خفیہ تھا۔ صحافیوں میں اس کی خبر صرف جاوید شہزاد کو ہوئی اور وہ اُن کے پاس جا پہنچا اور گل بدین حکمت یار جیسے پر عزم راہ سے بھی خبر نکلوانے میں کام یاب ہو گیا۔ یوں پہلی بار انکشاف ہوا کہ ایک معاہدے کے تحت مختصر عرصے کے لیے صدر بننے والے صبغت اللہ مجددی اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں اور یہ کہ معاہدہ ٹوٹ چکا ہے۔

    جاوید مزاج کا دھیما آدمی تھا جو کبھی سختی یا بد اخلاقی سے بات کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ اپنی خوش مزاجی اور دھیمے پن کے باوجود وہ ایک حوصلہ مند اور بہادر آدمی بھی تھا۔ قاضی ظفر اقبال جاوید کے نوجوانی کے ساتھی ہیں۔ انھیں برسات کا ایک موسم یاد ہے جب راول پنڈی کا مشہور نالہ لئی منھ زور ہو کر ابل پڑا اور شہری آبادی زیر آب آ گئی۔ ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم ہوا کرتی تھی۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہ رسول پنڈی پہنچیں جہاں گوالمنڈی پل پر شہری انتظامیہ نے انھیں بریفنگ دی۔ مسئلہ یقینا بڑا تھا لیکن کمشنر صاحب لفظوں کی بازی گری سے کام لے رہے تھے۔ یہ دیکھ کر جاوید شہزاد سے رہا نہ گیا۔ وہ چلا کر بولا:

' وزیر اعظم صاحبہ! یہ لوگ سفید جھوٹ بول رہے ہیں '

    جاوید شہزاد کا یہ نعرہ مستانہ غضب ڈھا گیا۔ کمشنر صاحب اور دیگر تادیر پیشیاں بھگتتے رہے۔ وزیر اعظم نے انکوائری بٹھا دی تھی۔یہ شاید 14 اکتوبر 1999 کی بات ہے، جاوید شہزاد اور قاضی صاحب کسی فوجی افسر کے یہاں شادی کی تقریب میں شریک ہوئے۔ کچھ دیر کے بعد جنرل پرویز مشرف بھی آ پہنچے جنھوں نے دو روز پہلے ہی اقتدار پر قبضہ جما کر اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا منصب تخلیق کر لیا تھا۔ جنرل مشرف کو دیکھنے کے بعد جاوید شہزاد کی حس پھڑک اٹھی اور اس نے حالات کی نزاکت کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال داغ دیا:

    ' چیف ایگزیکٹو صاحب! نواز شریف ابھی زندہ ہے یا اسے آپ نے لا پتہ کر دیا ہے؟' 

    یہ سنتے ہی جنرل مشرف کی سیکیورٹی حرکت میں آ گئی اور اس نے جاوید کی مشکیں کس کے اسے دیوار سے لگا دیا۔ بڑی مشکل سے اس کی گلو خلاصی ہو سکی۔ جاوید کی اس حرکت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا معلوم ہو گیا کہ نواز شریف محفوظ ہیں اور انھیں چکلالہ ایئربیس میں رکھا گیا ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ جاوید جو کچھ کرتا تھا، اسے اپنی حرکتوں کے نتائج کا علم نہیں تھا، وہ ایسا جانتے بوجھتے کرتا تھا کیوں کہ وہ یقین رکھتا تھا کہ خبر تک پہنچنے کے لیے جان کو جوکھوں میں ڈالنا ہی پڑتا ہے۔یہی زمانہ ہے جس میں جاوید شہزاد اور ارشد ملک کے درمیان گاڑھی چھنی۔ ارشد بتاتے ہیں کہ جاوید کے پاس پرانی سی ایک موٹر سائیکل ہوا کرتی ہے جس کی کبھی بریک کام نہ کرتی اور کبھی کلچ لیکن جاوید کو جس جانب سے خبر کی بو آتی اس جانب دوڑ لگا دیتا اور جاوید اس متاع بے بہا سے اپنا دامن بھر کر لوٹتا۔ اس کی جبلت، محنت اور نیک نیتی نے اسے اپنے ساتھیوں میں ممتاز کر دیا۔ صحافت کے صنعت بن جانے کے عہد ناپرساں میں یہ کم ہی دیکھا گیا ہے کہ کوئی صحافی اپنی حیات مستعار کے دن پورے کر کے اس دنیا سے رخصت ہو تو مالکان بھی اس کے غم میں آنسو بہاتے دیکھ جائیں۔ جناب مہتاب عباسی ہمارے یار کے بچھڑنے پر اشک بار ہوئے اور با دیدہ تر یہ کہتے سنے گئے کہ میں نے آج اپنا بیٹا کھو دیا ہے تو اس میں ان کی بڑائی کے ساتھ ساتھ جاوید میں بھی تو کوئی خوبی رہی ہوگی۔

    صحافی کا کام گورکن کی طرح سے ہوتا ہے جو لاشوں کو تہہ خاک دباتے دباتے کچھ بے حس سا ہو جاتا ہے۔ اس کٹھالی سے نکلے ہوئے صحافی خال ہی مختلف مزاج پاتے ہیں۔ جاوید شہزاد کا شمار بھی ان تھوڑے سے لوگوں میں ہوتا ہے جو حساس ہوتے ہیں اور کسی کو مشکل میں دیکھ جن کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ جاوید کا شمار بھی ان تھوڑے سے لوگوں میں کیا جا سکتا ہے۔ رضا وارثی نے کبھی کہا تھا  

میری شان وہ ہے کہ میں جا بجا ہوں
جہاں ڈھونڈئیے ہر جگہ برملا ہوں

جاوید شہزاد کی ہم دردی اور خدا ترسی کے واقعات بالکل اسی شعر کی طرح دوستوں کی یادوں میں روشن ہیں لیکن ایک واقعہ تو کمال کا یے۔ اپنی وفات سے چند روز پہلے ہی جاوید کا کراچی جانا ہوا۔ برادرم ممتاز بھٹی بھی اس کے ہم سفر تھے۔ کراچی میں ایک شام یہاں وہاں گھومتے ہوئے ان کا شیرینی کی ایک معروف دوکان پر جانا ہوا جس کے فالودے کے شائقین وہاں قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں۔ ممتاز بھٹی کہتے ہیں کہ جاوید نے اپنی باری پر وہاں فالودے کے تین پیالے طلب کیے۔ ممتاز کہتے ہیں کہ میں جاوید کے مزاج سے تو واقف تھا لیکن اس وقت تین فالودوں کے آرڈر پر مجھے کسی قدر حیرت ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے حیرت ختم ہو گئی جب جاوید پیالہ اٹھائے اٹھائے دروازے تک پہنچا اور فٹ پاتھ پر  یٹھے ایک شخص کے ہاتھ میں تھما دیا۔ واپسی پر کہنے لگا کہ مجھے یوں محسوس ہوا تھا کہ  یہ شخص فثولودے سے لطف اندوز ہونے کی خواہش تو رکھتا ہے لیکن اس کی جیب اجازت نہیں دیتی۔ ممتاز بھٹی ہوں یا ارشد ملک، دونوں گواہی دیتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جاوید کھانے کے لیے کسی ریسٹورنٹ پر پہنچا ہو اس نے تنہا  اپنا پیٹ بھرا ہو۔ 

    یہ یقینا صحافی کی حیثیت سے اس کی تربیت کا ہی کا کمال ہو گا کہ اس کی دائیں بائیں نظر ہمیشہ رہتی اور کوئی نہ کوئی ضرورت مند اس کی نگاہ میں آ جاتا۔ وہ اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیتا یا بیرے کو ہدایت کرتا کہ جس چیز کا آرڈر میں نے دیا ہے، وہی اسے بھی پیش کرو یا جو وہ پسند کرے، وہی فراہم کرو۔ ان دوستوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی دن ایسا یاد نہیں پڑتا کہ کوئی نوالہ تنہا اس کے پیٹ میں گیا ہے جیسے عام لوگوں اور کمزوروں کے لیے اس کا دست دست تعاون ہمیشہ دراز رہتا، بالکل اسی طرح وہ دوستوں کے لیے بھی ہمیشہ دست یاب ہوتا۔ خود میرے بیٹے کی دعوت ولیمہ کے لیے جس طرح دن رات ایک کر کے اس نے کام کیا، اس کے لیے میں اس کے لیے صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔ انتظامات کے ضمن میزبان پریشان رہتا ہی ہے۔ میں بھی پریشان تھا اور ظاہر ہے کہ میری اہلیہ بھی۔ وہ ہماری باتیں خاموشی کے ساتھ سنتا رہا پھر میری بیوی سے مخاطب ہو کر کہا:

    ' خاتون اول! پریشان نہ ہوں، انتظامات میرے ذمے ہیں، آپ نے بس اپنے مہمانوں کا خیال رکھنا ہے '

حقیقت یہ ہے کہ اس تقریب کے حسن انتظام کو لوگ آج بھی خوش دلی کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ ایسا دوست اللہ قسمت والوں کو ہی دیتا ہے۔ اللہ اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور اس کے بیوی بچوں کے لیے خوشیاں اور آسانیاں ارزاں فرمایے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں