غزل
جانے والے جا کر آنا بھول گئے
خوشبو ٹھہری، ہاتھوں آئے پھول گئے
کالے بادل ہم نے خود ہی تان لیے
اونٹوں والے چھوڑ کے اجلی دھول گئے
کیسے لوگوں کے پہلو میں بیٹھے تھے
لوگ وہ اجڑے، اپنے سب معمول گئے
تب تھا اس جانب کو تکنا بار تجھے
اب کیا ہو گا دن تھے وہ معقول، گئے
پیاسے تھے جو تم سے ملنے آئے تھے
ہم نے دیکھا تم جو ہو مشغول، گئے
پاگل کرنے والی رت ہے ساون کی
اپنی بانہیں، تیری جان کے جھول گئے
اس نے قتل کیا ہے پھر سے ارماں کا
دے کر وعدوں کو وہ اپنے طول گئے
اک اندر تھا، اک باہر سیلاب نہ پوچھ
جو تحویل میں نامے تھے منقول، گئے
حسرتؔ کتنے کچّے یار ہیں اب دیکھو
ایک ذرا سی بات ہوئی اور پھول گئے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
...
غزل
چشم سے نکلے ہوئے ہیں کس طرح چشمہ و سیلاب دیکھ
اور ہر سیلاب میں اٹھتے ہوئے گرداب دیکھ
جو بھی نکلے سربکف نکلے، سحر دم شہر میں
اِس عجب شہرِ تمنا کے عجب آداب دیکھ
کیا خبر کیا ہو پسِ گل ہائے مہر و التفات
پردۂ شیریں دہن میں تلخیٔ زہراب دیکھ
اے مری شوریدگی مجھ کو ذرا سستانے دے
آ مرے پائے شکستہ، آ مرے اعصاب دیکھ
نیند بستہ آنکھ میں پھر سے نئی تعبیر ڈھونڈ
روزنِ چشمِ تصور میں سہانے خواب دیکھ
سوزؔ ایسے بھی سلجھتی ہیں کہاں یہ گتھیاں
عشق کے عنوان سے پہلا خودی کا باب دیکھ
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)
...
غزل
چھپا لی اپنی صورت کیوں دکھا کر
مریض عشق پر کچھ تو دیا کر
ملی آخر ہے بس اک گھونٹ نفرت
زباں پر سچ میں آیا تھا سجا کر
مسیحا عشق کو سمجھا ہے دل نے
مسیحا، درد کی میرے دوا کر
ملے گا خاک میں اک دن تو وہ بھی
جو خوش ہے، میری ہستی کو مٹا کر
کوئی تو عرش پہ، پہنچے گی آخر
دعا کر، بدگماں دل، بس دعا کر
چلے آئے ہیں لے کے درد پیہم
گئے تھے اس گلی، یہ دل منا کر
تپش یادوں کی گھٹتی ہی نہیں ہے
گیا تھا کوئی اپنے، خط جلا کر
(عامرمعانؔ۔ کوئٹہ)
...
غزل
اجنبی سے کب تحفے میں گلاب لیتے ہیں
اس طرح کی صورت ہو تو حجاب لیتے ہیں
خودکشی پہ مائل لگتے ہیں قافلے والے
تشنگی ہے تو کیوں راہِ سراب لیتے ہیں
ایک شخص مجھ کو ڈھیروں دعائیں دیتا ہے
فجر سے سویرے جب آفتاب لیتے ہیں
وہ زمانے کے خال و خد میں کام آئے گی
چل، امام سے اک مٹھی تراب لیتے ہیں
عشق چھوڑ کر تجھ سے صرف دوستی کر لوں؟
کب سمندروں کے عادی،چناب لیتے ہیں
یہ چراغ تو مدعو کرتے ہیں قزاقوں کو
اس لیے ہوا اکثر ہم رکاب لیتے ہیں
ہم نے آبلے بے توقیر کر لیے ساگرؔ
لوگ تو ارادے کا بھی ثواب لیتے ہیں
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)
...
غزل
بہت تھوڑا سا اسبابِ سفر رکھے ہوئے ہے
جبھی وہ اپنی گاڑی تیز تر رکھے ہوئے ہے
میں دن ڈھلنے سے پہلے گھر پہنچنا چاہتا ہوں
یہی خواہش مجھے محوِ سفر رکھے ہوئے ہے
مرے دشمن، اسے سکھلا تعاقب کا سلیقہ
ترا جو آدمی مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے
وہ اچھا تیرنے والا ہے لیکن اُس بھنور میں
بمشکل خود کو سطحِ آب پر رکھے ہوئے ہے
ہمارے ساتھ چل سکتا ہے جو بھی چلنا چاہے
مگر وہ شخص جو راہ ِ مفر رکھے ہوئے ہے
پریشاں دیکھ کر عزت سے پیش آتی ہے دنیا
ترا غم مجھ کو کتنا معتبر رکھے ہوئے ہے
تمہی اذنِ سفر دینے سے کترانے لگے ہو
حسن تو اپنا ساماں باندھ کر رکھے ہوئے ہے
(وقار حسن۔ خوشاب)
...
غزل
اک کردار کہانی سے
بھاگ آیا آسانی سے
بات کروں کس سے آخر
ریت سے یا پھر پانی سے
تم انسان نہیں لگتے
آنکھوں کی ویرانی سے
جل پریوں نے گیت سنے
ریگستان کی رانی سے
بھول گیا وہ چہرہ بھی
کیسے خوش امکانی سے
ایک ستارہ جھانکتا ہے
نور بھری پیشانی سے
مٹی کے پُتلے ہیں آخر
بِکتے ہیں ارزانی سے
کوئی بات نہیں سنتا
کہہ دو گر حیرانی سے
( زاہد خان ۔تحصیل پہاڑپور، ضلع ڈیرہ اسماعیل خان)
...
غزل
مصیبت آن پڑتی ہے کہ جب کوئی نہیں رہتا
تو پھر ایسے میں جینے کا سبب کوئی نہیں رہتا
یہ میرے جسم کا زنداں ہے خالی ایک مدت سے
یہاں رہتا تھا پہلے میں پر اب کوئی نہیں رہتا
ضرورت ہو دلاسے کی تو کاندھے روٹھ جاتے ہیں
دعا کی گر ضرورت ہو تو لب کوئی نہیں رہتا
مری آنکھیں اسے دیکھیں تو سجدے میں چلی جائیں
کہا کس نے محبت میں ادب کوئی نہیں رہتا؟
ارے ارباب چاہت میں نہیں مرتا کوئی مانا
مگر یہ بات ہے جینے کا ڈھب کوئی نہیں رہتا
(ارباب اقبال بریار۔واہنڈو، گوجرانوالہ)
...
غزل
حیراں ہوں پریشاں ہوں نہ ہاتھوں کو ملوں ہوں
اپنا ہی بدن لے کے سرِ دار چلوں ہوں
رہوار مری خاک ہے سوچیں ہیں علا تک
صدقے انہی سوچوں کے جہنم میں جلوں ہوں
کیوں دیکھوں کسی سمت میں اے جاذبِ ہستی
میں خود بھی تری یاد کے ٹکڑوں پہ پلوں ہوں
ہر سمت سے ہی رسوا ہوں وللہ میں کروں کیا
گر رنج کو بھایا ہوں تو خوشیوں کو کھلوں ہوں
ہووے نہ کسی اور سے جو میں نے کیا ہے
کیوں در پہ ترے بیٹھوں میں ٹالے نہ ٹلوں ہوں
(علی رقی۔ فیصل آباد)
...
غزل
تکتے رہتے ہیں لکیریں دست کی
ہم سے بنتی کیوں نہیں ہے بخت کی
ہم ہیں راضی با رضا ہر حال میں
دل میں حسرت کب ہے تاج و تخت کی
دل اچھل کر پھر حلق تک آگیا
اس نے یونہی بات چھیڑی رخت کی
جان سے پیارے تھے اس کو ہم کبھی
بات لیکن ہے یہ بیتے وقت کی
اس کا ملنا ہی مقدر میں نہ تھا
دیر سے ہم بات سمجھے بخت کی
اس کی آنکھیں اس قدر ویران تھیں
جیسے کوئی سرزمیں ہو دشت کی
ایرے غیرے کو سمجھ آتی نہیں
بات گہری ہے قلندر مست کی
وہ سمے کے ساتھ چلتا ہے میاں
جو سمجھتا ہو طبیعت وقت کی
گھر کی ساری برکتوں کو کھا گئی
تو تو، میں میں، ہرگھڑی، ہر وقت کی
دل ہجوم شہر سے اکتا گیا
پھر ڈگر راحلؔ پکارے دشت کی
(علی راحل۔ بورے والا، پنجاب)
...
غزل
مرا خیال دل بے ضمیر پر اگتا
یہ کوئی زخم نہ تھا جو سریر پر اگتا
تری توجہ کے دریا کہاں ضروری تھے
میں وہ شجر تھا جو آنکھوں کے نیر پر اگتا
تمھارے بعد بجھا ہوں سو کیسی حیرانی
میں دن نہیں تھا جو شب کے اخیر پر اگتا
یہ شکر ہے کوئی تہمت نہیں ملی ورنہ
یہ موتیا بھی مزارِ فقیر پر اگتا
یقیں کریں نہ کریں پر سبھی نے دیکھا تھا
کسی کے ہاتھ میں سورج غدیر پر اگتا
(حسیب الحسن۔ خوشاب)
...
غزل
میں تو محبوب تیرا غم بھی گوارا کرتا
کاش کہ تو بھی مجھے غم میں پکارا کرتا
یہ تیری شوخ ادائیں ہی تیری دشمن تھی
میں تو ہر وقت تیری نظر اتارا کرتا
میں نے جب ساتھ نبھانے کی قسم کھائی تھی
میں تو ہر حال سے اس دل کو گزارا کرتا
تم سے پہلے بھی بہت درد سہے ہیں میں نے
ہر نیا زخم پرانوں کو ابھارا کرتا
تب بھی ارسلؔ مجھے ان سے ہی جدا ہونا تھا
گر میں اس پیار کو ارسل جو دوبارہ کرتا
(ارسلان شیر ۔ کابل ریور ،نوشہرہ)
...
غزل
اس کو دل میں بسا دیا میں نے
یوں دل اپنا گنوا دیا میں نے
بااثر شخص بے وفا نکلا
دل جلا کر جلا دیا میں نے
اب میرے سر پہ چھڑ گیا پاگل
جس کو سر پر چڑھا دیا میں نے
مسکرا کر کسی سے یوں بولے
اس کو پاگل بنا دیا میں نے
بس یہی جھوٹ روز کہتا ہوں
اس کو سچ مچ بھلا دیا میں نے
( عاطف خان ۔ڈھکی خورہ آباد، ضلع چارسدہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی