عاقب آئین اسٹائن

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کیلیے جو گڑھا کھودا اس میں اپنی ٹیم نے بھی چھلانگ لگا دی


سلیم خالق January 27, 2025

کراچی:

’’ہمیں چند انڈسٹرئیل سائز پنکھے اور ہیٹرز چاہیے ہوں گے،شاید کچھ اور بھی درکار ہو وہ آپ کو بتا دیں گے، دنیا جب اپنی مرضی کی پچز بنا کر میچ جیتتی ہے تو ہم کیوں ایسا نہ کریں‘‘۔

میٹنگ میں جب ایک سلیکٹر نے پی سی بی حکام سے یہ کہا تو سب کو حیرت ہوئی کہ پنکھوں اور ہیٹرز کا پچ کی تیاری سے کیا تعلق جو یہ مانگ رہے ہیں،ایک نے تو آہستہ سے یہ تک کہہ دیا’’وڈا آیا عاقب آئین اسٹائن‘‘ خیر فرمائش پوری کر دی گئی۔

پھر استعمال شدہ پچ پر دوسرا میچ کرانے کا فیصلہ ہوا،پہلا ٹیسٹ جیت کر سیریز میں برتری حاصل کرنے والی انگلش ٹیم بھی ملتان میں پریکٹس کے دوران ہنستی تھی کہ یہ کیا ڈرامے کر رہے ہیں، خیر پھر میچ ہوا تو ساجد خان اور نعمان علی کی گیندیں اتنی ٹرن ہوئیں کہ مہمان بیٹرز کے سر چکرا گئے، وہ شین وارن اور مرلی دھرن کو بھول گئے۔

پاکستان نے میچ جیت کر سیریز برابر کر دی، پھر راولپنڈی میں تیسرا ٹیسٹ بھی اسپن پچ پر کرانے کا فیصلہ ہوا،وہاں بھی منفرد طریقے استعمال ہوئے،یہ ٹیسٹ بھی پاکستان نے جیت لیا اور عاقب جاوید کی بلے بلے ہو گئی، علیم ڈار کو بھی اس ’’کارنامے‘‘ کا کریڈٹ دیا جانے لگا، ہوم سیریز ہارنے والی ہماری ٹیم نے انگلینڈ جیسے حریف کو زیر کر لیا تعریف تو بنتی تھی، انگلش کوچ برینڈن میک کولم چند برس قبل اپنی ٹیم میں جارحانہ انداز کھیل لائے تھے جسے ان کی عرفیت پر ’’بیز بال‘‘ قرار دیا گیا تھا، پاکستان کی حکمت عملی کو ’’عاقب بال‘‘ کہا گیا۔

اس کے بعد جنوبی افریقہ میں حسب توقع چونکہ ایسی پچز نہ ملیں لہذا ہماری ٹیم کا حشر نشر ہو گیا، اب رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر موجود ویسٹ انڈین ٹیم کے خلاف پھر وہی اسپن حکمت عملی اپنائی گئی، جیسے تیسے پہلا ٹیسٹ تو جیت لیا لیکن دوسرے میں اب شکست کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔

پہلے میچ میں ہی بیٹنگ لائن اسپن کیخلاف جدوجہد کرتی دکھائی دی تھی،پہلی اننگز میں سعود شکیل اور محمد رضوان کی ففٹیز نے اسکور باعزت مقام تک پہنچایا، دوسری باری میں صرف شان مسعود کی نصف سنچری سامنے آئی، دیگر بیٹرز ناکام رہے،پہلے ہوم سیریز میں ڈبل اور ٹرپل سنچریاں بنتی تھیں اب تو سنگل سنچری کے لالے پڑ چکے ہیں۔

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کیلیے جو گڑھا کھودا اس میں اپنی ٹیم نے بھی چھلانگ لگا دی، انگلینڈ کیخلاف سیریز میں فتح پر مجھ سمیت سب نے عاقب جاوید کی خوب تعریفیں کی تھیں لیکن پھر ویسٹ انڈیز سے پہلے میچ میں کامیابی کے باوجود اس حکمت عملی پر ٹی وی پر بھی تنقید کی، جس پر لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ٹیم جیت گئی اور یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔

اب وجہ سمجھ آ گئی ہوگی،انگلینڈ کے کوچ نے اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ میں بھی مثبت انداز میں کھیلنے پر قائل کیا تھا جس کی بدولت فتوحات ملیں، ہمارے سلیکٹر اور موجودہ کوچ نے صرف دماغ لڑاتے ہوئے کچھ ایسے عارضی فیصلے کیے جو وقتی طور پر تو کارآمد ثابت ہوئے لیکن طویل المدتی فوائد سامنے نہ آئے، الٹا اپنی بیٹنگ لائن ہی ایکسپوز ہونے لگی۔

ویسٹ انڈین لیفٹ آرم اسپنر جومل ویریکن نے 17 ٹیسٹ میں ایک بار بھی اننگز میں 5 وکٹیں نہیں لی تھیں گذشتہ میچ میں 10 پلیئرز کو آؤٹ کیا جس میں اننگز میں 7 وکٹ کا کارنامہ بھی شامل تھا، گوڈاکیش موتی نئی گیند سے بھی کامیابیاں سمیٹنے لگے، ہم نے پہلا ٹیسٹ تو جیت لیا اب دوسرے میں بھی باقی بیٹرز ذمہ داری سے کھیلے تو فتح مل سکتی ہے لیکن یہ ’’ٹوٹل اسپن فارمولہ‘‘ کب تک چلے گا۔ 

یہ بات درست ہے کہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ بھی ہمیں فاسٹ پچز پر گھیر لیتے ہیں تو ہم کیوں نہ انھیں اسپن ٹریکس پر پھنسائیں، اس کیلیے بھائی اپنے بیٹرز کو بھی تو ایسی پچز پر کھیلنے کی تربیت دیں، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کیا پنکھے لگا کر ہیٹرز سے تیز پچز بناتے ہیں؟ ان کے تو بعض میدان ایسی ہی پچز کے حامل ہیں  جہاں مقامی پلیئرز ڈومیسٹک میچز بھی کھیلتے ہیں لہذا ٹیسٹ میں مسائل نہیں ہوتے۔ 

کیا پاکستان قائد اعظم ٹرافی اور پیٹرنز ٹرافی پہلے دن سے اسپن ہونے والی پچز پر کراتا ہے؟ بالکل نہیں، ان ایونٹس میں تو بیٹنگ کیلیے سازگار ٹریکس ہوتے ہیں،ایسے میں اگر محمد ہریرہ اور کامران غلام ناکام ہو گئے تو ان کا کیا      قصور، انھوں نے کون سا ایسی پچز پر ہزاروں رنز بنا کر ٹیم میں جگہ حاصل کی تھی۔

یہاں تو بابر اعظم تک سے نہیں کھیلا جا رہا، یا تو آپ فیصلہ کر لیں کہ اب تمام ڈومیسٹک میچز بھی ٹرننگ ٹریکس پر ہوں گے، پھر چند برسوں میں بیٹرز کو بھی ان کی عادت ہو جائے گی اور وہ ہوم ٹیسٹ کرکٹ میں رنز بنانے لگیں گے لیکن پھر اوے میچز کا کیا ہوگا؟

شاہین آفریدی اور نسیم شاہ جیسے پیسرز کو آپ نے پہلے ہی گھر بٹھا دیا، نئے لڑکے لاتے ہیں ایک، دو میچ بعد وہ باہر، اس سے یہ تو ہو رہا ہے کہ عاقب جاوید کے دور میں اتنے پلیئرز کو چانس مل گیا لیکن ان میں سے کتنے ٹیم کا مستقل حصہ بنے اصل سوال یہ اٹھے گا۔ 

جب آپ باہر جا کر کھیلیں گے گورے آپ سے تھوڑی کہیں گے کہ یہ لو بڑے پنکھے اور ہیٹرز بنا لو اپنی مرضی کی پچز وہاں تو وہ اپنے حساب سے کھیلیں گے، پھر آپ شاہین سے کہیں گے جا بیٹا 5 آؤٹ کر، نہیں کیا تو بولیں گے چار روزہ میچ نہیں کھیلتا، او بھائی ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا انھیں وقت کہاں ملتا ہے، ٹیم کے ٹورز چل رہے ہوتے ہیں یا پھر لیگز وغیرہ ہوتی ہیں، صرف 2،3 میچ کھیل کر آپ کیسے کسی سے ٹیسٹ میں لمبے اسپیل کی توقع رکھیں گے۔

ویسے بھی کیا شاہین نے 116ٹیسٹ وکٹیں مسلسل چار روزہ میچ کھیلنے کے بعد لی ہیں،اگر آپ نے فرسٹ کلاس میں ٹرننگ ٹریکس بنائے تو ادھر بھی پہلے اوورز سے اسپنرز کا راج ہو گا اور آہستہ آہستہ ملک سے پیس بولنگ بالکل ختم ہی ہو جائے گی۔

آپ تو پھر کسی فرنچائز کو پکڑ لیں گے ملکی کرکٹ کا کیا ہوگا؟ ایسا نہ ہونے دیں توازن لائیں، ملتان میں اسپن ٹریک ہے تو راولپنڈی میں فاسٹ ہو، کراچی میں سپورٹنگ پچ بنے تو لاہور میں بیٹرز کا راج ہو،  مکسڈ انتظام کریں۔ 

آپ انگلینڈ اور آسٹریلیا میں دیکھ لیں ایسا ہی ہوتا ہے، پرتھ کی پچ تیز تو سڈنی میں اسپنرز کو مدد ملتی ہے، اپنی وقتی واہ واہ کیلیے پاکستان کرکٹ کے مستقبل کو خطرے میں نہ ڈالیں، ویسے ہی نئے پیسرز سامنے آنا بند ہو گئے اس سے تو اور حوصلہ شکنی ہونے لگے گی، کاش کوئی عاقب بھائی کو یہ سمجھا دے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں