`دو ماہ قبل امریکا کے دو سرکاری اداروں، یو ایس سیکورٹیز ایند ایکسچینج کمیشن اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس نے بھارت کے دوسرے اور دنیا کے پچیسویں امیر ترین فرد، گوتم اڈانی پر الزام لگا دیا کہ اس نے بھارتی حکومت سے توانائی کے پروجیکٹ حاصل کرنے کے لیے حکمران طبقے (سیاست دانوں، سرکاری افسروں، جرنیلوں،ججوں)کو 256 کروڑ ڈالر کی رشوت دی۔
پاکستانی کرنسی میں یہ رقم تقریباً 76 ارب روپے بنتی ہے جو اچھی خاصی بڑی ہے۔ یاد رہے، جنوری 2023ء میں بھی امریکی کمپنی، ہنڈن برگ ریسرچ نے اڈانی پر الزام لگایا تھا کہ وہ سٹاک مارکیٹ اور اپنے کاروبار میں فراڈ سے کام لیتا ہے۔
جنوری 23ء سے قبل تریسٹھ سالہ گوتم اڈانی کو بالعموم سیلف میڈ دولت مند سمجھا جاتا تھا جو محنت اور ذہانت سے کام لے کر امیر شخصیت بن گیا۔ اس کا باپ کپڑوں کا چھوٹا سا تاجر تھا۔ 1981ء میں گوتم کے بھائی نے پلاسٹک کی اشیا بنانے والی چھوٹی سے فیکٹری بنائی۔ اسی کے بل بوتے پر گوتم نے اپنی کاروباری سلطنت ، اڈانی گروپ کھڑی کر لی جس میں بیس سے زائد کمپنیاں شامل ہیں۔
گوتم اڈانی پر البتہ یہ الزام ضرور لگا کہ وہ سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کی جاوبے جا فرمائشیں پوری کرتا ہے تاکہ ان سے سرکاری ٹھیکے حاصل کر سکے۔ وہ خاص طور پہ اپنی آبائی ریاست، گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی کے قریب تھا۔ اور جب مودی وزیراعظم بنا تو گوتم اڈانی بھی ترقی کی نئی منازل طے کرنے لگا۔ مودی کی مہربانی سے اسے اربوں ڈالر مالیت رکھنے والے سرکاری ونجی پروجیکٹ مل گئے۔ گویا جنوری23ء سے قبل بھی بھارت میں یہ سوچ جنم لے چکی تھی کہ گوتم کی ترقی میں بااثر سیاسی وسرکاری شخصیات کا اہم کردار ہے۔ اور یہ کہ وہ پوری طرح دیانت داری سے انجام نہیں پائی۔
بہرحال جنوری 23ء میں گوتم اڈانی کے گروپ کی مالیت 206 ارب ڈالر نوٹ کی گئی تھی۔ یوں اس نے ٹاٹا گروپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیاتھا۔ اب صرف بھارت کے امیر ترین فرد اور ایک اور گجراتی، مکیش امبانی کا کاروباری گروپ، ریلائنس اس سے بڑا تھا۔ تب تک سمجھا جانے لگا تھا کہ مکیش اور گوتم مل کر امریکا اور چین کے بعد بھارت کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنا سکتے ہیں۔ مگر پھر ہنڈن برگ کمپنی کے الزامات سامنے آ گئے جنھوں نے اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی مالیت گرا دی۔ چند ہفتوں بعد گروپ کی مالیت صرف 201 ارب ڈالر رہ گئی۔ گویا وہ 104 ارب ڈالر کی مالیت کھو بیٹھا۔
اس کے بعد اڈانی گروپ کا میڈیا ونگ متحرک ہو گیا۔ الزامات سے گروپ کو جو مالی و اخلاقی نقصان پہنچا تھا، مختلف طریقوں سے اس کے اثرات زائل کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ اس سلسلے میں بھارتی حکمران طبقے نے بھی گوتم کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ مثلاً مئی 2024ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں نے قرار دیا کہ اڈانی گروپ پر ہنڈن برگ کمپنی کے لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔ چناں چہ انھوں نے بھارتی سرکاری اداروں کو گروپ کے خلاف تفتیش سے روک دیا۔
اس عدالتی فیصلے سے اڈانی گروپ کو بہت فائدہ پہنچا اور اس کے حصص کی مالیت بڑھ گئی۔ چند ہفتوں بعد گروپ کی مالیت200 ارب ڈالر سے بڑھ گئی۔ گوتم نے اعلان کیا کہ وہ امریکا اور افریقا میں اربوں ڈالر کے نئے پروجیکٹ شروع کرے گا۔ یوں اس سے لگا کہ گروپ کو ہنڈن برگ کمپنی کے الزامات سے جو جھٹکا لگا تھا، وہ زائل ہو چکا۔
مگر وسط نومبر 2024ء میں امریکی سرکار نے گوتم اور اس کے کاروباری گروپ پر نیا بم پھوڑ دیا۔ یہ جھٹکا تو ہنڈن برگ کے جھٹکے سے زیادہ زوردار اور شدید ہے کیونکہ یہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور کی جانب سے آیا ہے۔اور امریکی حکومت اس لیے متحرک ہوئی کیونکہ گوتم اڈانی نے فراڈ ودھوکے سے امریکی سرمایہ کاروں سے کروڑوں ڈالر لیے۔اس نے امریکی سرمایہ کاروں سے یہ حقائق پوشیدہ رکھے کہ اڈانی گروپ پر فراڈ کے کئی مقدمے چل رہے ہیں۔ اکثر امریکی قانون پسند ہیں۔لہذا جب انھیں حقائق کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے سرکاری قانونی اداروں سے مدد مانگ لی۔
امریکی حکومت کے الزامات سامنے آنے پر اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے حصص کی مالیت ایک بار پھر گرنے لگی۔ چند دنوں میں گروپ 40 ارب ڈالر کھو بیٹھا۔ خود گوتم کی دولت کی مالیت بھی 16 ارب ڈالر کم ہو گئی۔ یہ الزامات آنے سے قبل وہ 76 ارب ڈالر مالیت کی دولت رکھتا تھا۔ اب تادم تحریر وہ 60 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔
گوتم اڈانی امریکی حکومت کے الزامات تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ کہتا ہے کہ امریکی عدالتوں میں ان الزامات کا سامنا کریں گے۔ تاہم اگر وہ ختم بھی ہو گئے تو اڈانی گروپ کو جو مالی و اخلاقی نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا۔ گروپ نے کینیا میں ہوائی اڈہ اور مختلف سرکاری عمارات بنانے اور پاور ٹراسمیشن لائنیں بچھانے کے لیے کینین حکومت سے ایک ارب ڈالر مالیت کے پروجیکٹ پائے تھے۔ یہ الزامات منظرعام پر آئے تو کینین صدر نے اڈانی گروپ سے ہوئے تمام معاہدے منسوخ کر دئیے۔ یہ یقینی ہے کہ اب دیگر افریقی حکومتیں اور غیرملکی سرمایہ کار بھی اڈانی گروپ پر پیسا لگاتے ہوئے گھبرائیں گے۔
بھارت کی معیشت ملک کے سرکردہ انفراسٹرکچر ٹائیکون، مسٹر اڈانی کے ساتھ گہرائی سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ 13 بندرگاہیں (مارکیٹ کا 30% حصہ)، سات ہوائی اڈے (23% مسافروں کی آمدورفت) اور ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا سیمنٹ کاروبار (مارکیٹ کا 20%) چلاتا ہے۔
کوئلے سے چلنے والے چھ پاور پلانٹس کے ساتھ، مسٹر اڈانی حکمران طبقے میں بھارت کے سب سے بڑے نجی کھلاڑی ہیں۔ اسی وقت اس نے گرین ہائیڈروجن میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے اور وہ 8,000 کلومیٹر (4,970 میل) طویل قدرتی گیس پائپ لائن چلاتا ہے۔ وہ بھارت کا سب سے طویل ایکسپریس وے بھی بنا رہا ہے اور مقامی طور پر سب سے بڑی کچی آبادی کو دوبارہ تیار کر رہا ہے۔ وہ 45,000 سے زیادہ لوگوں کو ملازمت دیتا ہے، لیکن اس کے کاروبار سے ملک بھر میں لاکھوں افراد جڑے ہوئے ہیں۔ان کے عالمی عزائم انڈونیشیا اور آسٹریلیا میں کوئلے کی کانوں اور افریقہ میں بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر) کے منصوبوں پر محیط ہیں۔
مسٹر اڈانی کا پورٹ فولیو مودی کی پالیسی کی ترجیحات کا قریب سے آئینہ دار ہے جو بنیادی ڈھانچے سے شروع ہوا اور حال ہی میں صاف توانائی میں پھیل رہا ہے۔ ناقدین کی جانب سے اس کی کاروباری سلطنت کو اقربا پروری پہ مبنی کیپٹل ازم کا لیبل لگانے کے باوجود وہ ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ان کا اشارہ مودی کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کی طرف ہوتا ہے، گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ جہاں سے دونوں تعلق رکھتے ہیں۔کسی بھی کامیاب تاجر کی طرح مسٹر اڈانی نے بھی کئی اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور ان کی ریاستوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔
"یہ رشوت کے الزامات بہت بڑے ہیں۔ مسٹر اڈانی اور مودی ایک طویل عرصے سے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ معاملہ بھارت کی سیاسی معیشت پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔" ایک ہندوستانی صحافی، پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا کہتے ہیں، جس نے بزنس گروپ پر وسیع پیمانے پر لکھا ہے۔
امریکہ کے دانشور ، مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ اور بھارت کے تجارتی تعلقات کو جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر سری لنکا میں ایک بندرگاہ کے منصوبے کے لیے مسٹر اڈانی کے ساتھ امریکی ڈالر کے 500 ملین ڈالر کے حالیہ معاہدے کو دیکھتے ہوئے مگر اس کے متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ سنگین الزامات کے باوجود امریکہ اور بھارت کے وسیع تر کاروباری تعلقات مضبوط ہیں۔
"امریکہ اور بھارت کے کاروباری تعلقات بہت بڑے اور کثیر جہتی تعلقات ہیں۔ یہاں تک کہ کسی ایسے شخص کے خلاف ان سنگین الزامات کے باوجود جو بھارتی معیشت کا ایک اہم کھلاڑی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اس تعلقات پر پڑنے والے اثرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہیے۔" مسٹر کوگل مین کہتے ہیں۔
نیز، یہ واضح نہیں کہ کیا مسٹر اڈانی کو امریکہ-بھارت حوالگی کے معاہدے کے باوجود نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا نئی امریکی ٹرمپ انتظامیہ مقدمات کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتی ہے۔ بھارتی ماہر ، بالیگا کا خیال ہے کہ یہ اڈانیوں کے لیے عذاب اور اداسی کی بات نہیں ۔ "مجھے اب بھی لگتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار اور بینک اڈانیوں کی حمایت کریں گے جیسا کہ انہوں نے ہنڈن برگ کے بعد کیا تھا۔وجہ یہ ہے کہ اڈانی بھارتی معیشت کے بہت اہم، اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شعبوں کا حصہ ہیں۔" وہ کہتے ہیں،مارکیٹ میں احساس یہ بھی ہے کہ ایک بار جب ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار سنبھال لیا تو یہ معاملہ شاید ختم ہو جائے اور حل ہو سکے۔
اکثر بھارتی ماہرین کا دعوی ہے، ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر بن کر اڈانی گروپ کے خلاف سرکاری چھان بین ختم کر دے گا۔ وجہ یہ ہے کہ دونوں کاروباری دوست ہیں ۔ گوتم ماضی وحال میں کئی بار ٹرمپ کی تعریفیں کر چکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ پر خود مقدمے چل رہے ہیں جو صدر بننے کے بعد منجمند تو ہو جائیں گے، ختم نہیں ہوں گے۔ لہذا یہ امکان کم ہی ہے کہ ٹرمپ یہ کوشش کرے گا کہ اڈانی گروپ کے خلاف زیرعمل مقدمہ ختم ہو جائے۔ وہ یہ متنازع قدم اٹھا کر امریکی عوام اور عدلیہ میں یقیناً اپنا کردار مزید متاثر نہیں کرنا چاہے گا۔
حالات سے آشکارا ہے کہ گوتم اڈانی، اس کے عزیزوں اور اراکین ٹیم نے کاروباری ترقی کے لیے جو غیر قانونی اور غیراخلاقی حربے اختیار کیے، اب وہ وقتاً فوقتاً سامنے آ رہے ہیں۔ یہ انکشافات اڈانی گروپ کی مزید ترقی میں مزاحم ثابت ہو سکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انسان لالچ میں آ کر برائی اپنانے پر شاید وقتی فوائد پا لیتا ہے مگر آگے چل کر قدرت مکافات عمل کے ذریعے اسے کبھی نہ کبھی یہ سبق ضرور دے ڈالتی ہے کہ بدی کی راہ پہ چلنے کا نتیجہ بُرا ہی ہوتا ہے۔